سورة فاطر - آیت 5

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۖ وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اے لوگو ! بلاشبہ اللہ کا وعدہ برحق ہے لہذادنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ اللہ کے بارے میں تمہیں بڑا دھوکے باز، دھوکے میں ڈال دے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یعنی دنیا کے مال و دولت، اس کے عیش و آرام، اس کی دل کشیوں اور دلفریبیوں میں خود مستغرق ہو کر اپنے انجام کو بھول نہ جانا۔ اللہ کے ہاں ہر نعمت کی باز پرس ہونے والی ہے۔ کہ اس کا شکریہ ادا کیا تھا یا ناشکری کی تھی نیز اس دنیا میں کوئی چیز بھی بے کار پیدا نہیں کی گئی۔ ہر عمل اپنا ایک نتیجہ رکھتا ہے اور اس کے محاسبہ سے تم بچ نہیں سکتے لہٰذا اس دھوکے میں نہ رہنا کہ زندگی بس یہی دنیا کی زندگی ہے۔ تمہارے تمام تر اعمال ریکارڈ ہو رہے ہیں۔ اور ان کے نتائج تمہیں دوسری دنیا میں بھگتنے ہوں گے اور یہی قانونِ مکافات ہے جس کے خلاف کبھی نہیں ہو سکتا۔ شیطان کا اللہ کے نام پر دھوکا دینا: شیطان سب سے پہلے تو اللہ کی ہستی کے بارے میں لوگوں کو دھوکے میں ڈالتا ہے اور وہ اس کے دھوکے میں آ کر اللہ کی ہستی کے ہی منکر بن جاتے ہیں اور جو لوگ اس سے بچ جاتے ہیں تو وہ ان کو اللہ کی صفات میں بہت سی دوسری ہستیوں کو شریک بنانے کی راہیں سمجھاتا ہے۔ کچھ لوگ مظاہر کائنات کے بچاری ہیں، کچھ فرشتوں کے کچھ جنوں، کچھ اولیاء اللہ اور ان کی قبروں سے اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔ ہر دور میں شیطان انھیں شرک کی نئی نئی دلیلیں سمجھاتا ہے۔ پھر جو لوگ اس فریب سے بچ جاتے ہیں انھیں یہ پٹی پڑھاتا ہے کہ اگر تم سے یہ گناہ سرزر ہو بھی گیا تو اللہ بڑا غفور رحیم ہے یا ابھی بہت زندگی پڑی ہے بعد میں توبہ تائب کر لیں گے اس طرح شیطان لوگوں کو اللہ اور اس کےعذاب سے نڈر اور گناہوں پر جری بنا دیتا ہے۔