ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ
پھر اس کی تمام قوتوں کی درستی کی اور اپنی روح (میں سے ایک قوت) پھونک دی اور اس طرح اس کے لیے سننے، دیکھنے اور فکر کرنے کی قوتیں پیدا کردیں (لیکن افسوس انسان کی غفلت پر) بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی رحمت کاشکرگزار ہو
یعنی اس بچے کی ماں کے پیٹ میں نشوونما کرتے، اس کے اعضا بناتے، سنوارتے ہیں اور پھر اس میں روح پھونکتے ہیں۔ پھر تمہیں کان، آنکھیں اور دل عطا کیے۔ اپنی تخلیق کی تکمیل کی۔ پس تم ہر سننے والی بات کو سن سکو، دیکھنے والی چیز کو دیکھ سکو اور ہر عقل و فہم میں آنے والی بات کو سمجھ سکو۔ نا شکرا انسان: یعنی اتنے احسانات کے باوجود انسان اتنا نا شکرا ہے کہ وہ اللہ کا شکر بہت ہی کم ادا کرتا ہے۔ یا شکر کرنے والے آدمی بہت ہی تھوڑے ہیں۔ (احسن البیان)