سورة البقرة - آیت 27

الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(فاسق کون ہیں؟ فاسق وہ ہیں) جو احکام الٰہی کی اطاعت کا عہد کر کے پھر اسے تور ڈالتے ہیں اور جن رشتوں کے جوڑنے کا خدا نے حکم دیا ہے ان کے کاٹنے میں بے باک ہیں اور (اپنی بدعملیوں اور سرکشیوں سے) ملک میں فساد پھیلاتے ہیں سو (جن لوگوں کی شقاوتوں کا یہ حال ہے وہ ہمیشہ گمراہی کی چال ہی چلین گے۔ اور فی الحقیقت) یہی لوگ ہیں جے کے لیے سرتسر نامرادی اور نقصان ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اس آیت میں فاسقوں کی صفات بیان كی گئی ہیں جو یہ ہیں:( ۱) اللہ سے عہد کو توڑنا۔ اس سے مراد عہد الست ہے جو صلب آدم سے نکالنے کے بعد تمام ذریت آدم سے لیا گیا تھا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوْا بَلٰى ۚ شَهِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِيْنَ﴾ (الاعراف: ۱۷۲) ’’اور جب تیرے رب نے آدم کے بیٹوں سے ان کی پشتوں میں سے ان کی اولاد کو نکالا اور انھیں خود ان کی جانوں پر گواہ بنایا، کیا میں واقعی تمھارا رب نہیں ہوں؟ انھوں نے کہا کیوں نہیں، ہم نے شہادت دی۔ (ایسا نہ ہو) کہ تم قیامت کے دن کہو بے شک ہم اس سے غافل تھے۔‘‘ رشتوں ناطوں کو ملائے رکھنا: پہلی صفت میں اللہ اور بندے كے تعلق كا بیان ہے اور دوسری صفت میں بندے اور بندے کے درمیان تعلق كا بیان ہے اگر ان چیزوں کا لحاظ نہ رکھا جائے تو یہیں سے فساد کی کئی قسمیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ قرابت داری کو توڑنے کا گناہ بہت بڑا ہے۔ یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔ حدیث:ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےكہ ’’جب اللہ تعالیٰ ساری مخلوق کو پیدا کرچکا تو رحم (مجسم بن کر) کھڑا ہوگیا، اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہو کیا بات ہے؟ کہنے لگا: میں اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ لوگ مجھے کاٹ دیں گے (قرابت داری کا خیال نہیں رکھیں گے) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ جو تجھے جوڑے گا میں بھی اُسے جوڑدوں گا اور جو تجھے قطع کرے گا میں بھی اسے قطع کروں گا۔ رحم کہنے لگا میں اس پر راضی ہوں۔‘‘ (مسلم: ۲۵۵۴)