أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنفُسِهِم ۗ مَّا خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ لَكَافِرُونَ
کیا ان لوگوں نے کبھی اپنے دل میں اس بات پر غور نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے محض بیکار اور عبث نہیں بنایا؟ ضروری ہے کہ حکمت اور مصلحت کے ساتھ بنایا ہو اور اس کے لیے ایک وقت مقرر ٹھہرادیا ہواصل بات یہ ہے کہ انسانوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنے پروردگار کی ملاقات سے یک قلم منکر ہیں۔
وجودانسان میں غوروفکر: انسان کے اندربھی ایک پوری کائنات آباد ہے۔ اس لیے انسان کے اندرکی دنیاکوعالم اصغر کہا جاتا ہے پھراس اندرونی دنیاکے بھی بے شمار پہلو ہیں جو اسے دوسرے جانداروں سے ممتاز کرتے ہیں مثلاً: (۱) زمین اور اس کے ماحول میں بے شمارچیزیں ایسی ہیں جوانسان کے لیے مسخرکردی گئی ہیں اوروہ ان سے جیسے چاہے کام لے سکتاہے۔اوریہ صفت انسان کے علاوہ کسی دوسرے جاندارمیں نہیں(۲)اسے خیروشرکی تمیزبخشی گئی ہے۔(۳)اسے وحی کے ذریعے سے متنبہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ (۴)اسے قوت ارادہ واختیاربخشاگیاہے۔(۵)اسے عقل وشعورکاوافرحصہ عطاکیاگیا ہے۔ یہ اللہ کے وہ عطیات ہیں جوانسان کے علاوہ کسی جاندار کو عطا نہیں گئے گئے۔ اوران کے عطاکرنے کامقصدیہ ہے کہ اس دنیامیں انسان کاامتحان لیاجائے کہ آیاوہ ان امورمیں اللہ کافرمانبرداربن کررہتاہے یانہیں جس میں اسے اختیاردیاگیاہے۔گویایہ دنیا صرف انسان کے لیے ہی دارالامتحان ہے کسی اورجاندارکے لیے نہیں اور اس امتحان کاوقت اس کی موت تک ہے۔ موت دراصل اس کے امتحان کے نتیجہ کے اعلان کادن ہے۔ کائنات میں غورفکر : یعنی کائنات کاذرہ ذرہ حق تعالیٰ کی قدرت کانشان ہے۔اوراس کی توحیدوربوبیت پردلالت کرنے والاہے۔اس لیے فرمایاکہ اس کے موجودات میں غوروفکر کرو۔ اللہ کی قدرت اور نشانیوں سے اس مالک کوپہچانو۔کبھی عالم علوی کو دیکھو تو کبھی عالم سفلی کواورسوچوسمجھوکہ یہ چیزیں عبث اوربے کارپیدانہیں کی گئیں۔ بلکہ رب نے انھیں کارآمد اور نشان قدرت بنایا ہے ہرایک کے لیے وقت مقرر ہے یعنی قیامت کا دن۔ جسے اکثر لوگ مانتے ہی نہیں۔ اخروی زندگی کیوں ضروری ہے: یعنی کسی شخص کاامتحان تو لیا جائے لیکن اس کے نتیجہ کااعلان ہی نہ کیاجائے۔یااعلان کے بعدنہ پاس ہونے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتے اورنہ فیل ہونے والوں کوکچھ سزادی جائے۔اورنہ ہی یہ ممکن ہے کہ امتحان کاوقت ختم ہونے سے پہلے ہی کسی کوسزادے ڈالی جائے لہٰذاسزاوجزاکااصل مقام دار الآخرت ہے نہ کہ یہ دنیا۔ لہٰذا روز آخرت کاقیام ضروری ہے۔مگراکثرلوگ اپنے پروردگارکی ملاقات کے منکرہیں۔ (تیسیرالقرآن)