سورة الروم - آیت 2

غُلِبَتِ الرُّومُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

) رومی قریب کی سرزمین میں مغلوب ہوگئے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

تعارف: جس زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کونبوت عطا ہوئی یعنی ۶۱۰ء میں۔ اس وقت عرب کے اطراف میں دوبڑی طاقتیں (Super power) موجود تھیں ایک روم کی عیسائی حکومت جودوباتوں میں مسلمانوں سے قریب تھی (۱) ایک یہ کہ دونوں اہل کتاب تھے (۲)دونوں آخرت پرایمان رکھتے تھے لہٰذامسلمانوں کی ہمدردیاں انہی کی ساتھ تھیں علاوہ ازیں جب مسلمانوں نے حبشہ ہجرت کی اورقریش مکہ نے انہیں واپس لانے کی کوشش کی توحبشہ کے عیسائی بادشاہ نجاشی نے باوجودان کی کوشش کے مسلمانوں کواپنے ہاں پناہ دی۔ دوسری بڑی طاقت،ایران کی حکومت تھی جودووجوہ کی بنا پر مشرکین کے قریب تھی (۱)ایک یہ کہ دونوں مشرک تھے۔ایرانی دوخداؤں کے قائل اورآتش پرست تھے اور(۲)یہ کہ دونوں آخرت کے منکرتھے انہی وجوہات کی بناپرمشرکین مکہ کی ہمدردیاں ایران کے ساتھ تھیں۔ (تیسیر القرآن) سورۂ روم میں دو بہت بڑی پیش گوئیاں: سورہ روم کی ابتدائی آیات میں دو ایسی پیش گوئیاں کی گئی ہیں جو اسلام اور پیغمبر اسلام کی حقانیت پر زبردست دلیل ہیں ۔ (۱) اگر آج روم شکست کھا گیا ہے تو چند سال بعد ہی روم پھر ایران پر غالب آجائے گا۔ (۲)اگر آج مسلمان مشرکین مکہ کے ہاتھوں مظلوم و مقہو ر ہیں تو ان کو بھی اسی دن مشرکین مکہ پر غلبہ حاصل ہوگا جس دن روم ایران پر غالب آئے گا۔ (تیسیرالقرآن) رومی مغلوب ہوگئے : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے چند سال بعد ایسا ہواکہ فارس کی حکومت عیسائی حکومت پر غالب آگئی جس پر مشرکوں کو خوشی اور مسلمانوں کو غم ہوا ۔ اس موقعہ پر قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوئیں ۔ جن میں یہ پیش گوئی کی گئی کہ (بِضْعِ سِنِیْنَ) کے اندر رومی غالب آجائیں گے اور غالب،مغلوب اور مغلوب غالب ہوجائیں گے۔ بظاہر اسباب میں یہ پیش گوئی ناممکن العمل نظر آتی تھی ۔ تاہم مسلمانوں کو اللہ کے اس فرمان کی وجہ سے یقین تھاکہ ایسا ضرور ہو کر رہے گا۔ اسی لیے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ابوجہل سے یہ شرط باندھ لی کہ رومی پانچ سال کے اندر دوبارہ غالب آجائیں گے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں یہ بات آئی تو فرمایاکہ بضع کا لفظ تین سے دس تک کے عدد کے لیے استعمال ہوتاہے۔ تم نے پانچ سال کی مدت کم رکھی ہے اس میں اضافہ کرلو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس مدت میں اضافہ کروا لیا کہ اگر بضع کی مدت یعنی (تین سے ۹سال) تک رومی غالب نہ آئے تو میں سو اونٹ تم کو دوں گاورنہ اتنے ہی اونٹ تم مجھے دو گے۔ اس وقت شرط حرام نہیں ہوئی تھی۔ اور پھر ایسا ہی ہواکہ رومی نوسال کی مدت کے اندر اندر یعنی ساتویں سال دوبارہ فارس پر غالب آگئے ۔ جس سے یقیناً مسلمانوں کو بڑی خوشی ہوئی (ترمذی: ۳۱۹۴) بعض کہتے ہیں کہ رومیوں کو یہ فتح اس وقت ہوئی جب بدر میں مسلمانوں کو کافروں پر غلبہ حاصل ہوا اور مسلمان اپنی فتح پر خوش ہوئے۔ رومیوں کی یہ فتح قرآن کریم کی صداقت کی ایک بہت بڑی دلیل ہے