سورة العنكبوت - آیت 51

أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَىٰ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کیا ان لوگوں کے لیے یہ نشانی کافی نہیں کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی ہے جوانہیں برابر سنائی جارہی ہے جو لوگ یقین رکھنے والے بلاشبہ ان کے لیے اس نشانی میں سرتاسر رحمت اور فہم وبصیرت ہے (١٩)۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اس آیت کے مخاطب کفارہیں تاہم اس کے مخاطب مسلمان بھی ہیں۔انہیں بھی اس کتاب کی موجودگی میں کسی اورکتاب ہدایت کی ضرورت نہیں۔خواہ وہ کوئی سابقہ آسمانی کتاب ہی کیوں نہ ہو۔چنانچہ سیدناجابررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک دفعہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تورات کے کچھ اوراق لائے اورانہیں پڑھناشروع کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کاچہرہ متغیر ہو رہا تھا یہ صورت حال دیکھ کرسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے سیدناعمر رضی اللہ عنہ سے کہاکہ تم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ کی طرف نہیں دیکھتے ؟سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاتوکہنے لگے کہ میں اللہ اور اس کے رسول کے غضب سے پناہ مانگتاہوں۔ہم اللہ کے رب ہونے پراسلام کے دین ہونے پراورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پرراضی ہیں۔ اس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کاغصہ فرو ہوگیااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے۔کہ اگرآج موسیٰ علیہ السلام ظاہرہوجائیں اورتم مجھے چھوڑکراس کی پیروی کرو تو تم گمراہ ہوجاؤگے اوراگرآج موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے اورمیری نبوت کازمانہ پاتے تومیری اتباع کے سواانہیں کوئی چارہ نہ ہوتا۔‘‘ (بخاری: ۳۱۲۵) اللہ فرماتاہے ایمان والوں کے لیے اس میں رحمت ہے۔یہ قرآن حق کوظاہرکرنے والااورباطل کوبربادکرنے والا ہے۔ گزشتہ لوگوں کے واقعات تمہارے سامنے رکھ کر تمھیں نصیحت وعبرت کاموقع دیتا ہے۔ گنہگار کا انجام دکھا کر تمہیں گناہوں سے روکتاہے۔