أُولَٰئِكَ الَّذِينَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ
پھر اگر یہ لوگ تم سے جھگڑا کریں تو (اے پیغمبر) تم کہہ دو میرے اور میرے پیروؤں کا طریقہ تو یہ ہے کہ ہم نے اللہ کے آگے سر اطاعت جھکا دیا ہے (یعنی ہماری راہ خدا پرستی کے سوا اور کچھ نہیں ہے) اور اہل کتاب اور (عرب کے) ان پڑھ لوگوں سے پوچھو تم بھی اللہ کے آگے جھکتے ہو یا نہیں؟ اگر وہ جھک جائیں تو (سارا جھگڑا ختم ہوگیا اور) انہوں نے راہ پالی، اگر روگردانی کریں تو پھر (جن لوگوں کو خدا پرستی ہی سے انکار ہو اور محض گروہ بندی کے تعصب کو دین داری سمجھ رہے ہوں، ان کے لیے دلیل و موعظت کیا سود مند ہوسکتی ہے) تمہارے ذمے جو کچھ ہے وہ پیام حق پہنچا دینا ہے اور اللہ اپنے بندوں کے حال سے غافل نہیں۔ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے
اعمال ضائع ہوگئے۔ یعنی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، یعنی دنیا دکھاوے کے لیے جتنے مرضی بڑے بڑے کام كیے تھے وہ سب اللہ کے حکم سے انکار کی وجہ سے ضائع ہوگئے، ایسے لوگوں کو تسکین نہیں ملتی۔ پریشان رہتے ہیں نیک نامی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتی،ہر دور میں ایسا ہوا ہے فرعون کے خلاف مومنوں کو کامیابی ہوئی۔ اصحاب کہف کا واقعہ بھی اس كی مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حالات بدل دیے۔ تبدیلی ضرور آتی ہے مگر وقت لگتا ہے اور قیامت کے دن انکار کرنے والوں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔