إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ ۗ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ
بلاشبہ "الدین" (یعنی دین) اللہ کے نزدیک "الاسلام" ہی ہے اور یہ اور یہ جو اہل کتاب نے آپس میں اختلاف کیا (اور گروہ بندیاں کرکے الگ الگ دین بنا لیے) تو (یہ اس لیے نہیں ہوا کہ اس دین کے سوا انہیں کسی دوسرے دین کی راہ دکھلائی گئی تھی یا دین کی راہ مختلف ہوسکتی ہے بلکہ اس لیے کہ علم کے پاسنے کے بعد وہ اس پر قائم نہیں رہے اور آپس کی ضد و عناد سے الگ الگ ہوگئے۔ اور یاد رکھو جو کوئی اللہ کی آیتوں سے انکار کرتا ہے (اور ہدایت پر گمراہی کو ترجیح دیتا ہے) تو اللہ (کا قانون جزا) بھی حساب لینے میں سست رفتار نہیں
دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے ۔ جو اللہ کو وحدہ لاشریک مان لیتا ہے۔ سمعنا واطعنا پر عمل کرتا ہے اور اسلام وہی دین ہے جسکی دعوت و تعلیم ہر پیغمبر اپنے اپنے دور میں دیتے رہے ہیں اور اب اسکی کامل ترین شکل جسے نبی آخر الزمان نے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ جس میں توحید و رسالت اور آخرت پر اس طرح یقین و ایمان رکھنا ہے جس طرح نبی کریم نے بتایا ہے اب محض یہ عقیدہ رکھ لینا کہ اللہ ایک ہے یا کچھ اچھے عمل کرلینا یہ اسلام نہیں نہ اس سے آخرت میں نجات ملے گی۔ اسلام کے معنی ہیں کہ اللہ کے احکامات و ارشادات کے سامنے برضا و رغبت سر تسلیم خم کردینا ہے یعنی اللہ پر ایمان اور صرف اسکی عبادت کی جائے، رسول اللہ سمیت تمام انبیاء پر ایمان لایا جائے، رسول اللہ کو آخری نبی تسلیم کیا جائے وہ اعمال کیے جائیں جو قرآن اور حدیث رسول میں بیان کیے گئے ہیں۔ اب اللہ کے نزدیک اسکے علاوہ کوئی دین قبول نہیں ہوگا۔ آل عمران ۸۳ میں فرمایا کیاوہ اللہ تعالیٰ کے دین کے سوا کسی اور دین کی تلاش میں ہیں حالانکہ تمام آسمانوں اور زمین والے اللہ ہی کے فرمانبردار ہیں خوشی سے یا نا خوشی سے سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے ۔ حدیث : نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کے جسکے ہاتھ میں میری جان ہے جو یہودی یا نصرانی مجھ پر ایمان لائے بغیر فوت ہوگیا وہ جہنمی ہے۔ اختلاف اور اسکی وجوہ: اہل کتاب کا باہمی اختلاف، یہود کے فرقوں کا باہمی اختلاف، عیسائیوں کے فرقوں کا باہمی اختلاف، مسلمانوں کے فرقوں کا باہمی اختلاف۔ اللہ تعالیٰ نے اختلاف کی وجہ بیان فرمائی ہے کہ ان کی اپنی سرداریاں اور بڑائیاں قائم رہیں اور اپنا جھنڈا سر بلند رکھنا، مال و جان کا حصول، حسد و بغض کی وجہ سے اختلاف تھے۔ یعنی وہ لوگ حق جانتے تھے یعنی تورات اور انجیل دونوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبعوث ہونے کا ذکر موجود ہے۔ اور ان کی نشانیاں بیان کردی گئی ہیں کہ آپ نبی آخر الزماں اور نبی بر حق ہیں۔ لہٰذا اللہ ایسے لوگوں کا جلد ہی حساب چکا دیتا ہے افسوس آج مسلمان علماء کی ایک بڑی تعداد ٹھیک انہی مقاصد پر ٹھیک اسی طرح چل رہی ہے۔