سورة آل عمران - آیت 17

الصَّابِرِينَ وَالصَّادِقِينَ وَالْقَانِتِينَ وَالْمُنفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(شدت و مصیبت میں) صبر کرنے والے (قول و عمل میں) سچے، خشوع و خضوع میں پکے، نیکی کی راہ میں خرچ کرے والے، اور رات کی آخری گھڑیوں میں (جب تمام دنیا خواب سحر کے مزے لوٹتی ہے) اللہ کے حضور کھڑے ہونے والے اور اس کی مغفرت کے طلب گار

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے متقی لوگوں کی پانچ صفات کا ذکر کیا ہے۔ صبر : یہ ایک جامع اصلاح ہے۔ صبر دو طرح سے: (۱)کوئی مصیبت آجائے، نقصان ہوجائے، کوئی بیماری آجائے تو اللہ کی خاطر خوشدلی سے برداشت کرلیا جائے منہ سے ایسی بات یا کوئی ایسی حرکت نہ کی جائے جس سے آدمی اللہ کی رضا سے دور ہوجائے۔ (۲) دین کے راستے میں آنے والی مشکلات و مصائب کو خوش دلی سے برداشت کرکے آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے اسے استقامت بھی کہتے ہیں اور یہ بھی صبر ہی کی قسم ہے۔ (۲) سچ بولنے والا: اس کا اطلاق صرف اس شخص پر ہی ہوتا ہے جو سچ بولنے کا عادی ہو، اپنے معاملات میں راست باز ہو، بدعہدیوں اور فریب کاریوں سے بچنے والا ہو۔ (۳) اللہ کی راہ میں خرچ کرنا: یعنی اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے اپنی جائز ضروریات کے بعد زائد مال خوش دلی سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہو۔ (۴)استغفار کرنے والا۔ یعنی اوپر بتائے ہوئے اعمال پر عمل کرکے پُھولنے کی بجائے اللہ سے استغفار کرنے والے ہیں۔ جس کا بہترین وقت رات کا آخری حصہ ہوتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ رات کے آخری حصہ میں آسمان دنیا پر جلوہ فرماتے ہیں اور آواز لگاتے ہیں ’’کون مجھ سے دعا کرتا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں کون مجھ سے مانگتا ہے کہ میں اسے عطا کروں۔ ’’کون مجھ سے گناہوں کی معافی چاہتا ہے کہ میں اسے بخش دوں۔‘‘ (بخاری: ۱۱۴۵) (۵) فرمانبردار: ہر حال میں اللہ کا حکم ماننے والے۔ ثابت قدم رہنے والےاور بہ رضا و رغبت اس كے ہرحكم كے آگے سرتسلیم خم کرنے والے ۔