زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۗ ذَٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ
انسان کے لیے مرد و عورت کے رشتہ میں، اولاد میں، چاندی سونے کے ذخیروں میں، چنے ہوئے گھوروں میں، مویشی میں اور کھیتی باری میں دل کا اٹکاؤ اور خوش نمائی رکھ دی گئی ہے۔ (اس لیے قدرتی طور پر تمہیں بھی ان چیزوں کی خواہش ہوگی) لیکن یہ جو کچھ ہے دنیوی زندگی کا فائدہ اٹھانا ہے اور بہتر ٹھکانا تو اللہ ہی کے پاس ہے
اس آیت میں دنیا کی مرغوبات کو واضح کیا گیا ہے۔ یعنی وہ چیزیں جو طبعی طور پر انسان کو مرغوب اور پسندیدہ ہیں۔ اس لیے ان کی رغبت اور انکی محبت نا پسندیدہ نہیں ہے۔ بشرطیکہ یہ محبت اعتدال اور شریعت کے اندر ہو۔ انسان سمجھتا ہے کہ ان کی عزت ان چیزوں سے ہے۔ اور رب کہتا ہے کہ تم لوگ ایک دوسرے سے زیادہ دُنیا حاصل کرنے کی دھن میں لگے ہوئے آخر کار قبر تک پہنچ جاتے ہو۔ دنیا میں انسان کی خواہشات سے اس كا امتحان لیا گیا ہے کہ کون ہے جو آخرت کی ان دیکھی چیزوں کو اپنا مرکز بناتا ہے اس آیت میں سب سے پہلے عورت کا ذکر کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ ہر بالغ انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اور سب سے زیادہ مرغوب بھی۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرما ن ہے: ’’عورت اور خوشبو مجھے محبوب ہیں۔‘‘ (نسائی: ۱۴۶۹، مسند احمد: ۱/ ۲۳۱، ح: ۱۶۶۴) اسی طرح ’’آپ نے نیک عورت کو دنیا کی سب سے بہتر متاع قراردیا ہے۔‘‘(مسلم: ۱۴۶۷) اس لیے اس کی محبت شریعت کے دائرے سے تجاوز نہ کرے تو یہ بہترین شریک حیات بھی ہے اور زاد آخرت بھی ورنہ یہی عورت مرد کے لیے سب سے بڑا فتنہ ہے وہ ذہین ترین مردوں سے بھی ایسے کام کروالیتی ہے، جس سے ان کے دین میں خرابی آجاتی ہے۔ اگر اس کا مقصد مسلمانوں کی قوت میں اضافہ ہے تو بہت اچھا ہے ورنہ بُرا ہے نبی کا فرمان۔ ’’محبت کرنے والی عورت اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو۔‘‘ كہ اس سے میں قیامت کے دن دوسری اُمتوں کے مقابلے میں اپنی اُمت کی کثرت پر فخر کروں گا۔‘‘(ابوداؤد: ۲۰۵۲۔ نسائی: ۳۲۲۷) اس آیت سے رہبانیت اور خاندانی منصوبہ بندی کی تحریک کی تردید ہوتی ہے۔ مال و دولت سے بھی مقصود معیشت کا قیام، صلہ رحمی، صدقہ و خیرات اور ان امور میں خرچ کرنا ہو جس سے اللہ کی رضا حاصل ہو تو اس کی محبت بھی بُری نہیں۔ عمدہ گھوڑے، مال مویشی، کھیتی باڑی، دنیا کی خواہشات میں پھنس کر اللہ سے دور ہوجاتا ہے۔ اگر ان سب چیزوں کا مقصد محض دنیا کمانا ور پھر اس پر غرور و فخر کرنا، یاد الٰہی سے دور، غافل ہوکر عیش و عشرت کی زندگی گزارنا ہے تو یہ سب چیزیں بھی انسان کے لیے وبال کا باعث ہونگی۔ سونا، چاندی اور جمع کردہ خزانے: (۱)رسول اللہ نے فرمایا: مال سے دل غنی نہیں ہوتے، جو بے نیاز ہے وہ غنی ہے۔ (فتح الباری: ۱۱/ ۲۷۴) (۲) آپ چٹائی پر سوتے تھے فرمایا میں تو دنیا میں مسافر کی طرح ہوں سایہ دار درخت کے نیچے تھوڑی دیر آرام کرکے چلا جا ؤں گا۔ (۳) پیٹ سے بد تر کوئی برتن نہیں کھانا اتنا چاہیے جو اسے سیدھا رکھے۔ ایک حصہ کھانا کھائے۔ ایک حصہ پانی پیے اور ایک حصہ خالی چھوڑ دے۔(ابن ماجہ: ۳۳۴۹) اللہ کے پاس بہترین اجر ہے جنت ملے گی جس میں بڑھاپا اور بیماری نہیں ہو گی اور عمر کبھی نہیں بڑھے گی، اگر عورت سے محبت ہے تو اسے دین کی تعلیم دو، بیٹوں سے محبت ہے تو انھیں بھی اللہ کی محبت کی تعلیم دو۔ مال سے محبت ہے تو اسے اپنے لیے خرچ کرو اور اعلیٰ مقاصد کے لیے بھی خرچ کرو۔ خدا پرست بن جا ؤ یہ تو دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا سازوسامان ہے ۔ اپنی کشتی مضبوط باندھ لو کیونکہ آگے سمندر بہت گہرا ہے ۔ اچھے اعمال کرو۔دنیا کے پیچھے نہ بھاگو اللہ نے مومن کی جانیں جنت کے بدلے میں خرید لی ہیں۔ دنیا کی مثال: کوئی ایک اگر سمندر میں انگلی ڈبوتا ہے تو دیکھو کہ انگلی کتنا پانی لے کر آتی ہے۔ جنت کے باغوں میں ایسی ہوائیں چلیں گی جس سے لوگ زیادہ حسین ہو جائیں گے، اور گھر لوٹیں گے تو گھر والے اس سے زیادہ حسین ہونگے، اللہ کے پاس اچھا ٹھکانہ ہے اس کا انتظام آج ہی سے کرلو۔ خواہش اور شوق انسان کو چلاتا ہے تو جنت کے لیے شوق پیدا کرنا چاہیے۔