قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا ۖ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأُخْرَىٰ كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُم مِّثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ ۚ وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَن يَشَاءُ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّأُولِي الْأَبْصَارِ
بلاشبہ تمہارے لیے ان دو گروہوں میں (کلمہ حق کی فتح مندیوں کی) بڑی ہی نشانی تھی، جو (بدر کے میدان میں) ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تھے۔ اس وقت ایک گروہ تو (مٹھی بھر بے سروسامان مسلمانوں کا تھا جو) اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا۔ دوسرا منکرین حق کا تھا جنہیں مسلمان اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ ان سے دو چند ہیں (بایں ہمہ منکرین حق کو شکست ہوئی) اور اللہ جس کسی کو چاہتا ہے، اپنی نصرت سے مددگاری پہنچاتا ہے۔ بلاشبہ ان لوگوں کے لیے جو چشم بینا رکھتے ہیں، اس معاملہ میں بڑی عبرت ہے
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر کا نقشہ کھینچا ہے دو گروہ ایک اللہ کی راہ میں لڑ رہا ہے اور دوسرا کافروں کا ہے۔ مسلمانوں کی تعداد313 اور کافروں کی تعداد ۱۰۰۰ ہزار تھی۔ میدان جنگ میں رسول اللہ نے مسلمانوں کو کچھ اس انداز سے کھڑا کیا تھا کہ وہ کافروں کو اپنی اصل تعداد سے دو گنا نظر آئے تھے اگرچہ مسلمان تعداد، اسلحہ، جنگ اور سامان خوراک میں ہر لحاظ سے کافروں کے مقابلہ میں کمزور تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اللہ کی راہ میں قوت۔ اولاد مال کی طرف نہ دیکھو، اللہ کی طرف دیکھو۔ جہاں سے مدد ملنی ہے اختیار اللہ کا اور فیصلہ اللہ کا ہے، حق اس جہاں میں تنہا نہیں ہے مومن کا عقیدہ ہے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے جب اہل ایمان اٹھ کھڑے ہوں تو کفر کو بھاگتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔ اخلاقی اعتبار سے گروہوں میں فرق: مسلمان پرہیز گاراور خدا خوفی كی بنا پر نماز ادا کررہے تھے۔ جبکہ کفار کے گروہ میں ناچ گانا، شراب، رنگ و نور کی محفلیں سجی تھیں۔ دعا ’’یاحی یا قیوم‘‘اے زندہ اور قائم رہنے والے ہماری مدد فرما۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود ایک الگ خیمہ لگا یا ہوا تھا جس میں رات بھر آپ گریہ وزاری میں مصروف رہے۔ حضرت ابوبکر خیمہ میں تشریف لائے تو آپ کی حالت دیکھ کر کہا ’’اب بس کیجیے آپ نے دعا مانگنے میں انتہا کردی‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کے بعد یہ فرمایا: ’’اے اللہ! اگر تو نے مٹھی بھر جماعت کو آج ختم کردیا تو قیامت تک تیرا کوئی پرستار نہیں رہے گا۔‘‘ (تفسیر طبری: ۶/۲۳۴) دعائیں مانگ کر جب آپ خیمہ سے باہر نکلے تو آپ کے چہرے پر اطمینان تھا اور اللہ کی طرف سے آپ کو فتح کی بشارت مل چکی تھی۔ تائید الٰہی کی صورتیں: کافروں نے جلدی پہنچ کر پکی زمین پر قبضہ کرلیا۔ اللہ نے تیز ہوا چلادی پھر بارش برساکر اُسے پھسلن بنا دیا۔ (۲)جبكہ مسلمانوں نے ریتلے میدان میں پڑا ؤ کیا، لیكن جب بارش ہوئی تو مسلمانوں کے پا ؤں جم گئے۔ (۳) اللہ نے مسلمانوں کے دلوں میں سکون و اطمینان نازل فرمایا۔ (۴) اللہ نے فرشتے بھیج کر مسلمانوں کو سہارا دیا؎ فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی