إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ
بلاشبہ اس واقعہ میں عبرت کی بہت بڑی نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں
فرعون اور اس کے لشکر کی غرقابی: فرعون اور اس کے لشکر کی ہلاکت انھیں اس مقام تک کھینچ لائی۔ جب انھوں نے سمندر میں کھلے راستے دیکھے تو پھر بھی فرعون کو یہ خیال نہ آیا کہ ممکن ہے کہ سمندر میں اس طرح راستہ بن جانا ایک خرق عادت امر اور موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ ہو۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ فوراً اپنے گھوڑے انہی راستوں پر ڈال دئیے اور جب فرعون کا پورا لشکر سمندر کی زد میں آگیا تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے پانی کو حکم دیا کہ وہ اپنی طبعی حالت پر واپس آجائے اور آپس میں مل جائے۔ چنانچہ خدائی کے بلند بانگ دعوے کرنے والا فرعون اپنے تمام اہلیانِ سلطنت اور لاؤ لشکر سمیت سمندر میں غرق ہوگیا۔ (تیسیر القرآن) فرعون کے قصہ میں سامان عبرت: اس واقعہ میں ہر طرح کے لوگوں کے لیے نشانی ہے۔ ظالموں کے لئے یہ نشانی ہے کہ وہ اپنے کرتوں کی سزا اور اللہ کی گرفت سے بچ نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ انھیں ایسے راستوں سے مقام ہلاکت تک کھینچ لاتا ہے جن کا انھیں وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ لہٰذا اے معاندین قریش تم بھی اس واقعہ سے عبرت حاصل کرو کہ کہیں تمہیں بھی ایسے انجام بد سے دوچار ہونا نہ پڑے۔ اور اہل ایمان کے لئے بھی نشانی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان داروں کو آزماتا ضرور ہے۔ انھیں تکلیفیں بھی پہنچتی ہے اور بالآخر اللہ تعالیٰ مظلوموں کی ہی مدد کرتا ہے اور ظالموں کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔