هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ
(اے پیغمبر) وہی (حی و قیوم ذات) ہے جس نے تم پر الکتاب نازل فرمائی ہے۔ اس میں ایک قسم تو محکم آیتوں کی ہے ( یعنی ایسی آیتوں کی جو اپنے ایک ہی معنی میں اٹل اور ظاہر ہیں) اور وہ کتاب کی اصل و بنیاد ہیں۔ دوسری قسم متشابہات کی ہے (یعنی جن کا مطلب کھلا اور قطعی نہیں ہے) تو جن لوگوں کے لیے دلوں میں کجی ہے (اور سیدھے طریقے پر بات نہیں سمجھ سکتے) وہ (محکم آیتیں چھوڑ کر) ان آیتوں کے پیچھے پڑجاتے ہیں جو کتاب اللہ میں متشابہ ہیں۔ اس غرض سے کہ فتنہ پیدا کریں اور ان کی حقیقت معلوم کرلیں، حالانکہ ان کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (کیونکہ ان کا تعلق اس عالم سے ہے جہاں تک انسان کا علم و حواس نہیں پہنچ سکتا) مگر جو لوگ علم میں پکے ہیں، وہ (متشابہات کے پیچھے نہیں پڑتے وہ) کہتے ہیں "ہم ان پر ایمان رکھتے ہیں کیونکہ یہ سب کچھ ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے" اور حقیقت یہ ہے کہ (تعلیم حق سے) دانائی حاصل نہیں کرتے مگر وہی جو عقل و بصیرت رکھنے والے ہیں
محکم آیات سے مراد: وہ آیات جن کا مطلب واضح ہو۔ ان میں کسی قسم کا شبہ نہ ہو اور نہ ان كا کوئی دوسرا مطلب ہی لیا جاسکتا ہو مراد حلال و حرام کے احکام، اوامرو نواہی کے احکام ہیں۔ یہی چیزیں انسان کی ہدایت کے لیے کافی ہیں محکمات سے انسان کو پوری راہنمائی مل جاتی ہے۔ متشابہات سے مراد: ایسی آیات جن کا مفہوم انسانی ذہن کی پہنچ سے بالاتر ہو انسان کی عقل محدود ہے اور کائنات کے حقائق لا محدود ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ جب ایسے حقائق بیان فرماتے ہیں تو ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو حقیقت سے بھی قریب تر ہوں اور انسانی فہم سے بھی۔ ایسی آیات عموماً ذات و صفات الٰہی سے متعلق ہی ہوتی ہیں ۔ مثلاً اللہ کی ہستی، قضا و قدر کے مسائل، جنت، دوزخ، ملائکہ اللہ کا عرش کیسا ہے اور وہ کس طرح عرش پر بیٹھا ہے۔ اس طرح کی سوچ سراسر گمراہی ہے۔ جن کے دلوں میں کجی ہے: وہ متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں اور ان آیات کو اپنے عقیدے کے مطابق بنا لیتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر مبتلا دیا ہے کہ ایسی آیات کا صحیح مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے (قرآن) میں انہی لوگوں کو ذکر کیا ہے لہٰذا ان سے بچو۔‘‘ (بخاری: ۴۵۴۷) فتنہ برپا کرنیوالے لوگ: یہ متشابہات کے پیچھے پڑنے والے لوگ ہیں جیسے عیسائی،قرآن نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عبداللہ یعنی اللہ کا بندہ اور نبی کہا ہے۔ یہ واضح اور محکم آیت ہے لیکن عیسائی اسے چھوڑ کر قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ کو روح اللہ، کلمتہ اللہ جو کہا گیا ہے اس كو اپنے گمراہ کن عقائد پر غلط دلیل بناتے ہیں۔ متشابہات کی دوسری قسم ذو معنی الفاظ ہیں جیسے عربی زبان اور اس طرح کئی دوسری زبانوں میں بھی ابن یا بیٹا صرف حقیقی بیٹے کو ہی نہیں کہتے۔ بلکہ اپنے چھوٹے بھائی ۔ غلام، نوکر کو بھی ازراہ شفقت و پیار، بیٹا کہہ دیتے ہیں۔ اسی لفظ سے یہود کو یہ غلط فہمی ہوگئی کہ وہ واقعی اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔ اور نصاریٰ کو یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی کہ عیسیٰ علیہ السلام واقعی اللہ کے بیٹے تھے قرآن میں کئی مقامات پر اس باطل خیال کی تردید یعنی نفی کی گئی ہے۔ پختہ علم والے: متشابہات کا تعلق ایسے حقائق سے ہوتا ہے جو انسانی دسترس سے باہر ہوتے ہیں اور انسان کی ہدایت کا بھی ان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ لیکن چونکہ دونوں قسم کی آیات کا منبع ایک ہی ہے اس لیے دونوں منجانب اللہ درست اور صحیح ہیں، عقل سلیم اور پختہ علم والے متشابہات کی حقیقت کو جاننے کے پیچھے نہیں پڑتے بلکہ وہ اللہ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ جو فتنہ انگیز لوگ متشابہات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ہمیں ایسے لوگوں کے عقائد و افکار سے بچائے رکھ اور صحیح عقل و فکر عطا فرما۔