سورة الفرقان - آیت 67

وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور وہ جب خرچ کرنے لگتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ وہ خرچ ان دونوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اسراف و تبذیر میں فرق: اسراف کا اطلاق ضرورت کے کاموں میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے پر ہوتا ہے۔ تبذیر: اسراف ہی کی ایک قسم ہے جس کے معنی ہیں کہ ناجائز کاموں یا ناجائز ضرورتوں پر مال خرچ کرنا، جیسے شراب نوشی، قمار بازی، بیاہ شادی کے موقعہ پر آتش بازی، راگ رنگ اور بسنت کے نام پر پتنگ بازی وغیرہ جیسے کاموں پر ایک پیسہ بھی خرچ کرنا حرام ہے۔ اسراف کی ضد بخل ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ مقدور ہوتے ہوئے بھی ضرورت کے کاموں میں پیسہ ضرورت سے کم خرچ کرنا۔ اپنی ذات اور اپنے بچوں کی گزران میں بھی بخل کر جانا۔ خوراک پوشاک میں، طرز بودوباش میں، اعزا واقرباء کو تحفے تحائف دینے لینے میں غرض ہر جگہ بخل سے کام لینا۔ بالخصوص جب اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرنا پڑے تو ایسے محسوس ہو کہ پیسے کے ساتھ اپنی جان بھی نکلی جا رہی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ﴾ (بنی اسرائیل: ۲۹) ’’نہ تو اپنے ہاتھ اپنی گردن سے باندھ اور نہ انھیں بالکل ہی چھوڑ دے۔‘‘ فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اپنی گزران میں میانہ روی کرنا انسان کی سمجھ داری کی دلیل ہے۔ اور فرمایا: ’’جو افراط وتفریط سے بچتا ہے وہ کبھی فقیر ومحتاج نہیں ہوتا۔‘‘ (مسند احمد: ۵/ ۱۹۴)