لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتا۔ ہر جان کے لیے وہی ہے، جیسی کچھ اس کی کمائی ہے۔ جو کچھ اسے پانا ہے، وہ بھی اس کی کمائی سے ہے، اور جس کے لیے اسے جواب دہ ہونا ہے، وہ بھی اس کی کمائی ہے (پس ایمان والوں کی صدائے حال یہ ہوتی ہے کہ) خدایا ! اگر ہم سے (سعی و عمل میں) بھول چوک ہوجائے تو اس کے لیے نہ پکڑیوں اور ہمیں بخش دیجیو ! خدایا ! ہم پر بندھنوں اور گرفتاریوں کا بوجھ نہ ڈالیو جیسا ان لوگوں پر ڈالا تھا جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں ! خدایا ! بوجھ ہم سے نہ اٹھوائیو جس کے اٹھانے کی ہم (ناتوانوں ٰ میں سکت نہ ہو ! خدایا ہم سے درگزر کر ! خدایا ہم پر رحم کر ! خدایا ! تو ہی ہمارا مالک و آقا ہے۔ پس ان (ظالموں) کے مقابلے میں جن کا گروہ کفر کا گروہ ہے، ہماری مدد فرما
آزمائش بھی طاقت کے مطابق آتی ہے، اور جو حکم اللہ نے دیا ہے اس کو بجالانا ضروری ہے صبر کرنا بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھا کر نہ صرف ان کی پچھلی پریشانی کو ختم کردیا ہے بلکہ مزید تسلی و تشفی کا سامان بھی مہیا کردیا ہے۔ ان کی پریشانی یہ تھی کہ دل میں پیدا ہونے والے خیالات جو ہمارے اپنے اختیار میں نہیں ہوتے ان پر مواخذہ نہ ہو۔ جب دعا قبول کرنے والا ہی دعا سکھا رہا ہے تو پھر اس کی قبولیت میں کیا شک ہوسکتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اُمت سے خطا و نسیان کو معاف کردیا گیا ہے۔(ابن ماجہ: ۲۰۴۳) سابقہ شریعتوں کے احکام: یہاں بوجھ سے مراد سخت قسم کے شرعی احکام ہیں۔ جیسے (۱)بچھڑے کی پرستش کرنے والوں کی توبہ صرف قتل سے قابل قبول ہونا۔ (۲) یہود میں صرف قصاص تھا یعنی خون کا بدلہ خون، دیت اور معافی نہیں تھی۔ ان پر زکوٰۃ كل مال كا چوتھا حصہ فرض تھی اور کپڑے پر اگر پیشاب لگ جاتا تو اسے کاٹ دینا پڑتا تھا۔ نیز غنیمت کے اموال ان پر حرام تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے ایسے سخت احکام میں تخفیف فرمادی۔ یہ آیات اس دور میں نازل ہوئیں جب کافروں سے شدید محاذ آرائی تھی اور بہت سے نازک موقعوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی دعائیں مانگیں، خاص کر غزوہ بدر اور غزوہ خندق وغیرہ پر۔ آخری دو آیات کی فضیلت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیتوں کے بعد آمین کہنے کی ترغیب دی ۔ (ابن کثیر: ۱/۴۵۰) نیز آپ نے فرمایا کہ جو شخص رات کو سوتے وقت ان آخری دو آیات کو پڑھ لے تو وہ اس کو کفایت کرتی ہیں۔‘‘ (بخاری: ۵۰۰۹) یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت و استعانت اس کے شامل حال رہتی ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ!