سورة البقرة - آیت 284

لِّلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّهُ ۖ فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے، سب اللہ ہی کے لیے ہے، جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے، تم اسے ظاہر کرو، یا پوشیدہ رکھو ہر حال میں اللہ جاننے والا ہے۔ وہ تم سے ضرور اس کا حساب لے گا۔ اور پھر یہ اسی کے ہاتھ ہے کہ جسے چاہے بخش دے، جسے چاہے عذاب دے، وہ ہر بات پر قادر ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

دل کے خیالات پر گرفت نہیں: اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی تین صفات کاذکر ہوا ہے۔ (۱) مِلک یعنی ہر چیز کا وہ مالک ہے۔ (۲) علم، یعنی اس کاعلم اتنا وسیع ہے کہ وہ دلوں کے راز تک جانتا ہے۔ (۳) قدرت، یعنی اسے سزا دینے اور معاف کرنے کے کُلی اختیارات حاصل ہیں اور یہی تین صفات تفصیل کے ساتھ آیت الکرسی میں بیان کی گئی ہیں۔ محبت کرنے والا رب انسان کو شعور کی غذا دیتا ہے کہ ہر چیز اللہ ہی کے لیے ہے۔ سب کچھ ملنے پر بھی انسان کا اندر خالی ہوتا ہے اس کے اندر اللہ کے وجود کو دیکھو جو سب کچھ دینے والا ہے اور اس وجود کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو کہا تھا کہ آجا ؤ وجود میں خوشی، یا مجبوری سے: انسان کو اختیار دے دیا اور یہ کہا کہ اس اختیار کو میرے لیے استعمال کرو، پھر تمہارے لیے جنت ہے اللہ کی رضا ہے۔ اللہ سے ڈر کر اس کی مرضی کے مطابق اس کے احکامات پر عمل کرنا ہے۔ حیلوں بہانوں سے کام نہیں لینا، نہ سینہ زوری اور طلم و زیادتی سے کیونکہ کسی بھی ظاہری، پوشیدہ امر میں انسان نافرمانی کرکے اللہ سے بچ نہیں سکتا کیونکہ وہ تو سینوں کے راز بھی جانتا ہے۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس نے ہمیں غمزدہ بنادیا کہ اگر کسی کے دل میں گناہ کا خیال بھی آئے گا تو اس پر بھی حساب ہوگا پھر معلوم نہیں معافی ہویا نہ ہو۔ چنانچہ صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت لیکر گئے۔ آپ نے فرمایا کہو! ہم نے سُنا اور ہم اطاعت کرتے ہیں صحابہ کرام نے ایسا ہی کیا تو پھر (اٰمَنَ الرَّسُوْلُ) سے لے کر اگلی دو آیات نازل ہوئیں ۔ (لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا)نے اس آیت کے حکم کو منسوخ کردیا۔ یعنی دل میں پیدا ہونے والے وسوسوں پر گرفت معاف کردی گئی۔(مسند احمد: ۲/ ۴۱۲، ح: ۹۳۶۳) حضرت ابوبکر صدیق کہتے تھے کاش! میں درخت ہوتا حساب کتاب سے بچ جاتا، پرندوں کو دیکھتے تو کہتے کہ تم خوش نصیب ہوا ادھر اُدھر پھر تے ہو مگر تمہارا حساب نہیں ہوگا۔ كبھی کہتے کوئی اونٹ مجھے نگل لے اور میں مینگنی بن کر نکل جا ؤں تاکہ حساب کتاب سے بچ جا ؤں۔