سورة النور - آیت 63

لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

مسلمانو۔ جب پیغمبر اسلام تم میں سے کسی کو بلائیں تو ان کے بلانے کو آپس میں ایسی (معمولی) بات نہ سمجھو، جیسے تم میں سے ایک آدمی دوسرے آدمی کو بلایا کرتا ہے، اللہ ان لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہے جو (مجمع سے) چھپ کرکھسک جاتے ہیں۔ حکم رسول کی مخالفت کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو، ان پر کوئی آفت آپڑے یادردناک عذاب سے دوچار ہوں (٤٦)۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارنے کے آداب: اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ جس طرح تم ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح مت پکارو، بلکہ یا نبی اللہ، یا رسول اللہ کہہ کر پکارو تاکہ آپ کی بزرگی، اور عزت وادب کا پاس رہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ﴾ (الحجرات: ۲) ’’اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر بلند نہ کرو۔‘‘ اس آیت کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو تم اپنی دعاؤں کی طرح نہ سمجھو، آپ کی دعا تو مقبول مستجاب ہے۔ خبردار کبھی ہمارے نبی کو تکلیف نہ دینا کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے منہ سے کوئی کلمہ نکل جائے اور تم تہس نہس ہو جاؤ۔ اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ کوئی آفت نہ آجائے: یہاں آفت سے مراد دلوں کی وہ کجی ہے جو انسان کو ایمان سے محروم کر دیتی ہے، یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام سے سرتابی اور ان کی مخالفت کرنے کا نتیجہ ہے۔ اور ایمان سے محرومی اور کفر پر خاتمہ، جہنم کے دائمی عذاب کا باعث ہے۔ جیسا کہ آیت کے اگلے جملے میں فرمایا، پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منہاج، طریقے اور سنت کو ہر وقت سامنے رکھنا چاہیے، اس لیے کہ جو اقوال واعمال اس کے مطابق ہوں گے وہی بارگاہ الٰہی میں مقبول اور دوسرے سب مردود ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’جس نے ایسا کام کیا، جو ہمارے طریقے پر نہیں ہے وہ مردود ہے۔‘‘ (بخاری: ۲۶۹۷، مسلم: ۱۷۱۸) سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جماعت میں جب یہ منافق ہوتے تو ایک دوسرے کی آڑ ہی آڑ لے کر بھاگ جاتے، اللہ کے پیغمبر سے اور اللہ کی کتاب سے ہٹ جاتے، صف سے نکل جاتے، مخالفت پر آمادہ ہو جاتے، جو لوگ امر رسول، سنت رسول، فرمان رسول، طریقہ رسول اور شرع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کریں وہ سزا یاب ہوں گے۔ انسان کو اپنے اقوال وافعال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں اور احادیث سے ملانے چاہیں، جو ان کے موافق ہوں وہ اچھے ہیں، اور جو ان کے موافق نہ ہوں وہ مردود ہیں۔