فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ
اگر تم نے ایسا نہ کیا، تو پھر اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کے لیے تیار ہوجاؤ (کیونکہ ممانعت کے صاف صاف حکم کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنا، اللہ اور اس کے رسول کے برخلاف جنگ آزما ہوجانا ہے) اور اگر (اس باغیانہ روش سے) توبہ کرتے ہو، تو پھر تمہارے لیے یہ حکم ہے کہ اپنی اصلی رقم لے لو اور سود چھوڑ دو۔ نہ تو تم کسی پر ظلم کرو نہ تمہارے ساتھ ظلم کیا جائے۔
اگر تم نے سود نہ چھوڑا۔ تو پھر اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے اور اگر تم توبہ کرلو یعنی سود چھوڑ دو تو اصل سرمایہ تمہارا حق ہے۔ اور سود کا مطالبہ کرکے مقروض پر ظلم نہ کرو۔ اسی طرح مقروض کو اصل سرمایہ ادا کرنا ہوگا تاکہ تم پر بھی ظلم نہ ہو۔ ایسا کرنے سے انسان کے دل میں اخلاقی لحاظ سے اللہ کا خوف رہتا ہے اور اگر وہ چاہے تو سود کی رقم واپس بھی کرسکتا ہے ۔ قیامت کے دن فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص سود كے ذریعے سے مال میں اضافہ كرے گا اس كا انجام مال كی قلت ہو گا۔‘‘(مسند احمد: ۲۱/ ۳۹۵، ح: ۳۷۵۳) سود کا پہلا مطالبہ تقویٰ ہے یعنی اللہ سے ڈرتے رہو۔ جو ضمیر کا چوکیدار ہے خدا خوفی کا نگران ہے۔