سورة المؤمنون - آیت 88

قُلْ مَن بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

تو ان سے پوچھ اگر تم جانتے ہو تو بتلا وہ کون ہے جس کے قبضہ میں تمام چیزوں کی بادشاہی ہے؟ اور وہ سب کو پناہ دیتا ہے اور کوئی نہیں جو اس سے اوپر پناہ دینے والا ہو؟

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم عموماً ان لفظوں میں ہوتی تھی کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جب کوئی تاکیدی قسم کھاتے تو فرماتے اس ذات کی قسم جو دلوں کی مالک اور ان کو پھیرنے والی ہے۔ (بخاری: ۶۶۲۸) اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے فرماتے ہیں کہ پھر ان سے یہ بھی پوچھو کہ وہ کون ہے جو سب کو پناہ دے اور اس کی دی ہوئی پناہ کو کوئی توڑ نہ سکے اور نہ اس کے مقابلے پر کوئی پناہ ہی دے سکے۔ یعنی اتنا بڑا مالک کہ تمام خلق، ملک، حکومت اسی کے ہاتھ میں ہے۔ بتاؤ تو وہ کون ہے؟ پس یہاں اللہ کی عظمت و سلطنت بیان ہو رہی ہے کہ وہ قادر مطلق، حاکم کل ہے۔ کوئی اس کا ارادہ بدل نہیں سکتا، اس کا کوئی حکم ٹل نہیں سکتا، اس سے کوئی باز پرس نہیں کر سکتا، اس کی چاہت کے بغیر ایک پتہ بھی ہل نہیں سکتا۔ وہ سب سے باز پرس کر لے کسی کی مجال نہیں کہ اس سے کوئی سوال کر سکے۔ اس کی عظمت، اس کی کبریائی، اس کا غلبہ، اس کا دباؤ، اس کی قدرت، اس کی عزت، اس کی عظمت، اس کی حکمت، اس کا عدل بے پایاں اور بے مثل ہے۔ سب مخلوق اس کے سامنے عاجز، پست اور لاچار ہے۔ جس چیز کو وہ پکڑے اسے نہ کوئی چھڑا سکتا ہے اور نہ پکڑنے سے پیشتر اسے پناہ ہی دے سکتا ہے۔ اس آیت میں مشرکین مکہ کے اعتراف سے معلوم ہوا کہ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ جس کو اللہ پکڑے، اس کو نہ کوئی پناہ دے سکتا ہے اور نہ چھڑا سکتا ہے۔ مگر آج کے مشرکین مکہ کے مشرکین سے بھی آگے نکل گئے ہیں جو یہ کہتے ہیں: خدا جس کو پکڑے چھڑا لے محمد صلی اللہ علیہ وسلم محمد صلی اللہ علیہ وسلم جسے پکڑے چھڑا کوئی نہیں سکتا