يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ
وہ جسے چاہتا، حکمت دے دیتا ہے، اور جس کسی کو حکمت مل گئی تو یقین کرو، اس نے بڑی ہی بھلائی پالی اور نصیحت حاصل نہیں کرتے، مگر وہی لوگ جو عقل و بصیرت رکھنے والے ہیں
حکمت کیا ہے؟ حکمت سے مراد دین کا علم، نبوت، خشیت، دین و دنیا کی اصلاح، بصیرت قوت فیصلہ سے حق کی تلاش کرسکتا ہے۔ وقتی فائدے، اپنے بُرے بھلے کی حقیقت سمجھ سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حکمت کی اصل جڑ اللہ کا ڈر ہے تقویٰ ہے۔ (فی ظلال القرآن: ۵/ ۳۱۹۹) کیونکہ تقویٰ وہ چیز ہے جو انسان کو بچتے بچاتے سیدھی راہ پر رکھنے والی ہے۔ امام شافعی کا قول: آپ نے بیشمار دلائل سے ثابت کیا ہے کہ قرآن میں جہاں بھی کتاب و حکمت کے الفاظ اکٹھے آئے ہیں تو وہاں حکمت سے مراد سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور حکمت کا لغوی معنی کسی کام کو صحیح طور پر انجام دینے کا طریق کار ہے۔ حکمت ملنے کے بعد انسان اعتدا ل پسندی کے کام کرتا ہے۔ اشیاء کی قدروقیمت کے تعین میں غلطی نہیں کرتا، نیک اعمال کا انتخاب کرتا ہے۔ بھلائی کا رویہ اپناتا ہے۔ شیطانی راہ اختیار نہیں کرتا یعنی اپنی دولت کو سنبھال سنبھال کر نہیں رکھتا۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے اللہ دنیا میں بھی اس كا نعم البدل عطا فرمائے گا اور آخرت میں بہت بڑا اجر و ثواب عطا فرمائے گا۔ یہی سب سے بڑی دولت و حکمت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں اُسے دین کی سمجھ عطا کردیتے ہیں۔ ‘‘(بخاری: ۷۳) اور ایك روایت میں ہے كہ ’’میں بانٹنے والا ہوں اور دینے والا اللہ ہے اور یہ اُمت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی مخالف اسے نقصان نہ پہنچا سکیں گے تاآنکہ اللہ کا حکم(قیامت)آئے۔‘‘ (بخاری: ۷۱) اس آیت اور اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دین کی سمجھ آجانا ہی حکمت اور سب سے بڑی دولت ہے۔