يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ
مسلمانو ! جو کچھ تم نے (محنت مزدوری یا تجارت سے) کمائی کی ہو اس میں سے خرچ کرو یا جو کچھ ہم تمہارے لیے زمین میں پیدا کردیتے ہیں، اس میں سے نکالو، کوئی صورت ہو لیکن چاہیے کہ خدا کی راہ میں خیرات کرو تو اچھی چیز خیرات کرو۔ ایسا نہ کرو کہ فصل کی پیداوار میں سے کسی چیز کو ردی اور خراب دیکھ کر خیرات کردو (کہ بیکار کیوں جائے، خدا کے نام پر نکال دیں) حالانکہ اگر ویسی ہی چیز تمہیں دی جائے، تو تم کبھی اسے (خوشدلی سے) لینے والے نہیں مگر ہاں، (جان بوجھ کر) آنکھیں بند کرلو، تو دوسری بات ہے۔ یاد رکھو، اللہ کی ذات بے نیاز اور ساری ستائشوں سے ستودہ ہے (اسے تمہاری کسی چیز کی احتیاج نہیں، مگر اپنی سعادت و نجات کے لیے عمل خیر کے محتاج ہو۔
شان نزول: حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ آیت ہم گروہ انصار کے حق میں نازل ہوئی۔ ہم کھجوروں والے تھے۔ ہر کوئی اپنی کثرت و قلت کے موافق کوئی ایک خوشہ کوئی د و خوشہ لے کر آتے اور انھیں مسجد میں لٹکادیتے اہل صفہ کا یہ حال تھا کہ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہ ہوتا تھا۔ ان میں سے جب کوئی آتا تو عصا سے خوشہ کو ضرب لگاتا تو اس سے تروتازہ کھجوریں گر پڑتی جنھیں وہ کھالیتا۔ اور جنھیں نیکی کی رغبت نہ ہوتی وہ ایسے خوشے لاتے جن میں ناقص اور ردی کھجوریں ہوتیں۔ ٹوٹے پھوٹے خوشے لیکر آتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ترمذی: ۲۹۸۷)اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ (۱)خرچ کرو۔ (۲) پاک چیزوں میں سے۔ (۳) ردی چیزیں دینے کا ارادہ نہ کرو۔ ردی چیز لینے والے پر کیا بیتتی ہے۔ صدقہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ پاکیزہ کمائی سے ہو چاہے وہ تجارت و صنعت کے ذریعے سے ہو یا فصل و باغا ت کی پیداوار سے ہو۔ ردی چیزوں سے مراد: وہ چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ نہ کر وجو غلط کمائی سے ہوں اللہ تعالیٰ اسے قبول نہیں کرتا۔ ایك حدیث میں وارد ہے كہ ’’ اللہ تعالیٰ پاک ہے وہ پاک و حلال چیزیں قبول فرماتا ہے۔‘‘ (بخاری: ۱۴۱۰) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کشتی مضبوط باندھ لو سمندر بہت گہرا ہے یعنی دنیا کا سمندر۔ انسان کی کشتی اس کا عمل ہے۔‘‘ مضبوط ارادہ، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا، تقویٰ اختیار کرنا اللہ کا خوف علم سے ملتا ہے۔ گھنے پیڑوں کے سایہ تلے چھوٹے پیڑ سوکھ جاتے ہیں۔ ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر ابن آدم کے سب پیچھے اور آگے آنیوالے متقی ہوجائیں تو اللہ کی کائنات میں کوئی فائدہ ہونیوالا نہیں اور اگر سب فجور کرنیوالے ہوجائیں تو اللہ کا کچھ نقصان نہیں ہوگا۔(مسلم: ۲۵۷۷) جو کچھ زمین سے نکالا ہے: اس میں سے دوسروں کا حصہ نکالنا ضروری ہے۔ زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے۔ اللہ کا مشن دین پھیلانا ہے اس میں مال لگایا تو اللہ کے مشن میں حصہ ڈالا۔ جہاد کرلیا۔ دعوت دین کا کام کرلیا۔