سورة المؤمنون - آیت 33

وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِلِقَاءِ الْآخِرَةِ وَأَتْرَفْنَاهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا مَا هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يَأْكُلُ مِمَّا تَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اس کی قوم کے جن سرداروں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی اور آخرت کے پیش آنے سے منکر تھے اور جنہیں دنیا کی زندگی میں ہم نے آسودگی دے رکھی تھی (لوگوں سے) کہنے لگے اس سے زیادہ اس کی کیا حیثیت ہے کہ تمہارے ہی جیسا ایک آدمی ہے جو کچھ تم کھاتے ہو یہ بھی کھاتا ہے، جو کچھ تم پیتے ہو یہ بھی پیتا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یہ سرداران قوم ہی ہر دور میں انبیاء و رسل اور اہل حق کی تکذیب میں سرگرم رہے ہیں جس کی وجہ سے قوم کی اکثریت ایمان لانے سے محروم رہتی۔ کیونکہ یہ نہایت با اثر لوگ ہوتے تھے، قوم انہی کے پیچھے چلنے والی ہوتی تھی۔ یعنی عقیدہ آخرت پر عدم ایمان اور دنیوی آسائشوں کی فراوانی، یہ دو بنیادی سبب تھے اپنے رسول پر ایمان نہ لانے کے، آج بھی اہل باطل انہی اسباب کی بنا پر اہل حق کی مخالفت اور دعوت حق سے گریز کرتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ تو ہماری ہی طرح کھاتا پیتا ہے۔ یہ اللہ کا رسول کس طرح ہو سکتا ہے۔ آج بھی بہت سے مدعیان اسلام کے لیے رسول کی بشریت کا تسلیم کرنا نہایت گراں ہے۔