سورة الحج - آیت 78

وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ ۚ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ۚ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ ۖ فَنِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ النَّصِيرُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اللہ کی راہ میں جان لڑا دو، اس کی راہ میں جان لڑا دینے کا جو حق ہے پوری طرح ادا کرو، اس نے تمہیں برگزیدگی کے لیے چن لیا، تمہارے لیے دین میں کسی طرحح کی تنگی نہیں رکھی، وہی طریقہ تمہارا ہوا جو تمہارے باپ ابراہیم کا تھا، اس نے تمہارا نام مسلم رکھا، پھچلے وقتوں میں بھی اور اس (قرآن) میں بھی، اور یہ اس لیے کیا تاکہ رسول تمہارے لیے (حق کا) گواہ ہو (یعنی معلم ہو) اور تم تمام انسانوں کے لیے۔ پس نماز کا نظام قائم کرو، زکوۃ کی ادائیگی کا سامان کرو، اللہ کا سہارا مضبوط پکڑ لو، وہی تمہارا کارساز ہے اور جس کا کارساز اللہ ہوا تو کیا ہی اچھا کار ساز ہے اور کیا ہی اچھا مددگار۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

جہاد کی اقسام: جہاد کرنے کا حق یہ ہے کہ درجہ بدرجہ ہر طرح سے جہاد کیا جائے جہاد دراصل ہر اس بھر پور کوشش کا نام ہے جو اقامت دین کے لیے اور اس کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے کی جائے۔ اس کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس سے جہاد کرے اور اسے مکمل اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کے دین کے تابع بنا دے اس کا دوسرا درجہ اپنے اہل وعیال اور گھر بار کو پوری کوشش کے ساتھ اس راہ پر ڈالنا ہے، پھر اس کے بعد رشتہ داروں اور عام لوگوں کی باری آتی ہے۔ امت مسلمہ کو تمام سابقہ امتوں پر فضیلت: جہاد کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اپنے مال اور اپنی جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو اور حق جہاد ادا کرو جیسے حکم دیا ہے کہ اللہ سے اتنا ڈرو، جتنا ڈرنے کا حق ہے۔ اسی نے تمہیں برگزیدہ اور پسندیدہ کر لیا ہے اور دوسری امتوں پر تمہیں شرافت و کرامت، عزت اور بزرگی عطا فرمائی۔ کامل رسول اور کامل شریعت سے تمہیں سر فراز کیا، تمہیں آسان، سہل اور عمدہ دین دیا۔ وہ احکام، وہ سختی تم پر نہ کی، وہ بوجھ تم پر نہ ڈالے جو تمہارے بس کے نہ ہوں، جو تم پر گراں گزریں جنھیں تم بجا نہ لا سکو، اسلام کے بعد سب سے اعلیٰ اور سب سے زیادہ تاکید والا رکن نماز ہے۔ اسے دیکھیں کہ وطن میں ہوں تو چار رکعت فرض، پھر اگر سفر پر ہو تو وہ بھی دو رہ گئیں۔ اور خوف میں تو ایک حدیث کے مطابق صرف ایک ہی رکعت، وہ بھی سواری پر ہو تو، اور پیدل ہو تو، قبلہ رو ہو تو اور دوسری طرف توجہ ہو تو غرض جس طرح بھی ہو سکے پڑھ لو، پھر دوسری رکعت ادا کی جائے، اسی طرح یہی حکم سفر کی نماز کا ہے کہ جس طرف سواری کا منہ ہو پڑھ سکتے ہو۔ (مسلم: ۶۸۷) البتہ یہ حکم صرف نفل نماز کے لیے ہے۔ فرض نماز کو بلا عذر سواری پر ادا نہیں کرسکتے اور اس میں قبلہ رو ہونا ضروری ہے۔ پھر نماز کا قیام بھی بوجہ بیماری ساقط ہو جاتا ہے، مریض بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے، اس کی بھی طاقت نہ ہو تو لیٹے لیٹے ادا کر لے، اسی طرح اور فرائض اور واجبات کو دیکھو اللہ تعالیٰ نے کس قدر آسانیاں کر رکھی ہیں، اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: میں حنیف اور بالکل آسانی والا دین دے کر بھیجا گیا ہوں۔ (احمد: ۵/ ۲۶۶) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کو یمن کا امیر بنا کر بھیجا تو فرمایا تھا ’’تو خوشخبری سنانا، نفرت نہ دلانا، آسانی کرنا، سختی نہ کرنا۔ (بخاری: ۳۰۳۸) پھر دین کی مزید رغبت دلانے کے لیے بتایا جا رہا ہے کہ یہ وہ دین ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام لے کر آئے تھے، پھر اس امت کی بزرگی کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ تمہارا ذکر میری سابقہ کتابوں میں بھی ہے۔ مدتوں سے انبیاء کی کتابوں میں تمہارے چرچے چلے آرہے ہیں، پس اس قرآن سے پہلے اور اس قرآن میں تمہارا نام مسلم ہے۔ اور یہ نام خود اللہ کا رکھا ہوا ہے۔ حدیث میں آتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص اب بھی جاہلیت کے دعوے کرے (یعنی باپ دادوں پر، حسب نسب پر فخر کرے، دوسرے مسلمانوں کو کمینہ اور ہلکا خیال کرے) وہ جہنم کا ایندھن ہے، کسی نے پوچھا اے اللہ کے رسول! اگرچہ وہ روزے رکھتا ہو؟ اور نمازیں بھی پڑھتا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، ہاں اگرچہ وہ روزے دار اور نمازی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جو نام تمہارے رکھے ہیں انہی ناموں سے اپنے آپ کو منسوب کرو اور دوسرے مسلمانوں کو بھی پکارو۔ یعنی مسلمین، مومنین اور عباد اللہ۔ (ترمذی: ۲۸۶۳) پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ہم نے تمہیں عادل، عمدہ اور بہتر امت اس لیے بنایا ہے اور اس کے لیے تمام امتوں میں تمہارے عدل کی شہرت کر دی ہے تاکہ تم قیامت کے دن اور لوگوں پر شہادت دو۔ تمام اگلی امتیں، امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی اور فضیلت کا اقرار کریں گی کہ اس امت کو تمام امتوں پر سرداری حاصل ہے۔ اس لیے ان کی گواہی ان امتوں پر معتبر مانی جائے گی کہ ان کے رسولوں نے پیغام الٰہی انھیں پہنچا دیا ہے، وہ تبلیغ کا فرض ادا کر چکے ہیں، اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس امت پر شہادت دیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دین حق پہنچایا اور حق رسالت ادا کر دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اتنی بڑی عظیم الشان نعمت کا شکر تمہیں ضرور ادا کرنا چاہیے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ جو فرائض اللہ کے تم پر ہیں ان کو خوشی خوشی اور شوق سے بجا لاؤ، خصوصاً نماز اور زکوٰۃ کا پورا خیال رکھو، جو چیزیں اللہ نے واجب قرار دی ہیں انھیں دلی محبت سے بجا لاؤ، اور جو چیزیں حرام کر دی ہیں ان کے نزدیک بھی نہ پھٹکو۔ پس نماز خالص رب کی ہے اور زکوٰۃ میں رب کی عبادت کے علاوہ مخلوق کے ساتھ احسان بھی ہے۔ زکوٰۃ کے احکام سورئہ توبہ (۶۰) میں بیان ہو چکے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے کہ اللہ پر پورا بھروسہ رکھو، اسی پر توکل کرو، اپنے تمام کاموں میں اس سے امداد طلب کیا کرو۔ وہ تمہارا مولا ہے۔ تمہارا حافظ ہے، ناصر ہے، تمہیں تمہارے دشمنوں پر کامیابی عطا فرمانے والا ہے، وہ جس کا ولی بن گیا اسے کسی ولایت کی ضرورت نہیں۔ تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت وہیب بن ورد سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اے ابن آدم! اپنے غصے کے وقت مجھے یاد کر لیا کر، میں بھی اپنے غضب کے وقت تجھے معاف کر دیا کروں گا اور جن پر میرا عذاب نازل ہوگا میں تجھے ان میں سے بچا لوں گا، برباد ہونے والوں کے ساتھ تجھے برباد نہ کروں گا۔ اے ابن آدم جب تجھ پر ظلم کیا جائے تو صبر وضبط سے کام لے، مجھ پر نگاہیں رکھ، میری مدد پر بھروسہ رکھ، میری امداد پر راضی رہ، یاد رکھ میں تیری مدد کروں یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ تو آپ اپنی مدد کرے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی غلام اپنے آقا کو ’’میرا مولیٰ‘‘ نہ کہے، اس لیے کہ تم سب کا مولیٰ اللہ عزوجل ہے۔‘‘ (مسلم: ۱۴/ ۲۲۴۹) (اللہ تعالیٰ ہمیں بھلائیوں کی توفیق دے۔ اپنی امداد نصیب فرمائے۔ آمین) واللہ اعلم الحمد للہ سورہ حج کی تفسیر مکمل ہوئی اور اسی کے ساتھ ہی اللہ کے فضل و کرم سے سترھویں پارے کی تفسیر بھی ختم ہوئی۔