أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ وَالْفُلْكَ تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ وَيُمْسِكُ السَّمَاءَ أَن تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ
کیا تم نے اس بات میں غور نہیں کیا کہ کس طرح اللہ نے زمین کی تمام چیزیں تمہارے لیے مسخر کردی ہیں؟ جہاز کو دیکھو، کس طرح وہ اس کے حکم سے سمندر میں تیرتا چلا جاتا ہے؟ پھر کس طرح اس نے آسمان کو (یعنی فضائے سماوی کے اجرام کو) تھامے رکھا کہ زمین پر گریں نہیں اور گریں تو اس کے حکم سے؟ بلاشبہ اللہ انسان کے لیے بڑی ہی شفقت رکھنے والا بڑا ہی رحمت والا ہے۔
انسان پر اللہ تعالیٰ کے چار بڑے احسانات: اس آیت اور اس سے پہلی آیات میں دراصل ایسی باتوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کے بغیر انسان کا اس دنیا میں رہنا اور باقی رہنا مشکل تھا، اللہ کا سب سے پہلا احسان تو یہ ہے کہ زمین سبزہ اگاتی ہے اور اسی سبزہ پر انسان اور دوسرے جانوروں کی زندگی کا انحصار ہے۔ اللہ کا دوسرا احسان انسان پر یہ ہے کہ اس نے زمین کی ہر چیز کو اس کے لیے مسخر کر دیا ہے۔ ورنہ زمین میں بسنے والے درندے اسے چیر پھاڑ کر کھا جاتے اور اس کی ہستی کا خاتمہ کر سکتے تھے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اتنی عقل دی کہ وہ زمین کی ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیز کو اپنے کام میں لا رہا ہے۔ سمندر جو زمین کے تین چوتھائی حصے پر پھیلا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سمندر کو طبعی قوانین کا پابند بنا کر اسے بھی انسان کے تابع کر دیا ہے۔ تیسرا احسان اللہ کا یہ ہے کہ فضائے بسیط میں لاکھوں ہمہ وقت گردش میں مصروف سیارے اپنے اپنے مدار پر چلنے کے طبعی قوانین کے اس قدر پابند اور اس میں جکڑے ہوئے ہیں کہ ان میں سے کوئی زمین پر گر کر زمین کو پاش پاش اور انسان کو صفحہ ہستی سے مٹا نہیں سکتا۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ ہر آفت سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ چوتھا انسان کو اللہ تعالیٰ کا زندگی بخشنا اور انسان کو موت دینا اس لحاظ سے احسان ہے کہ اگر آدم سے لے کر موجودہ دور تک تمام مخلوق زندہ رہتی تو انسان کو زمین پر کھڑا ہونے کی بھی جگہ نہ ملتی۔