سورة الحج - آیت 54

وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَيُؤْمِنُوا بِهِ فَتُخْبِتَ لَهُ قُلُوبُهُمْ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَهَادِ الَّذِينَ آمَنُوا إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

نیز ( اس میں) یہ مصلحت بھی تھی کہ (ے پیغمبر) جن لوگوں نے علم پایا ہے وہ جان لیں کہ یہ معاملہ فی الحقیقت تیرے پروردگار ہی کی طرف سے ہے، اس طرح اس پر ایمان لے آئیں اور ان کے دلوں میں عجز و نیاز پیدا ہوجائے، یقینا اللہ ایمان والوں کو (سعادت و کامرانی کی) سیدھی راہ چلانے والا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

ایمان والوں کو اللہ سیدھی راہ دکھاتا ہے: یعنی ایمان لانے والے فوراً یہ سمجھ جاتے ہیں کہ فلاں بات تو فی الواقع وحی الٰہی ہے یا ہو سکتی ہے، اور فلاں بات شیطان کا وسوسہ یا دھوکا ہے۔ رہی یہ بات کہ قرآن شریف میں بتوں کی تعریف مذکور ہو یا یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ادا ہوئے ہوں تو ایمان والے فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ یہ بات ناممکنات میں سے ہے۔ رہا مشرکوں کا سجدہ ریز ہونا تو یہ قرآن کی اپنی تاثیر ہے۔ اسی بنا پر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جادوگر اور قرآن کو جادو کہا کرتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے مسلمانوں پر پابندی لگا رکھی تھی کہ وہ اونچی آواز میں قرآن نہ پڑھیں کہ اس سے ہماری عورتیں اور بچے متاثر ہوتے ہیں۔ حالانکہ وہ خود بھی قرآن کریم کی تاثیر سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔