لِّيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ فِتْنَةً لِّلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ ۗ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ
اس میں (ایک بڑی) مصلحت یہ رہی ہے کہ شیطان کی وسوسہ اندازی ان لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہوجائے جن کے دل روگی ہیں اور (سچائی کی طرف سے) سخت پڑگئے ہیں اور بلاشبہ یہ ظلم کرنے والے بڑی ہی گہری مخالفت میں پڑے ہیں۔
لات ومنات کی سفارش کا من گھڑت قصہ: اس آیت کی شان نزول کے متعلق بعض تفاسیر میں ایک واقعہ مندرج ہے جو یوں ہے کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ النجم کی تلاوت فرما رہے تھے اور یہ تلاوت مشرکین مکہ بھی پاس بیٹھے سن رہے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیات تلاوت فرمائیں: (اَفَرَءَ یْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰیo وَمَنَاۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْرٰی) تو شیطان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز میں اپنی آواز ملا کر درجِ ذیل الفاظ یوں پڑھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی زبان سے ادا ہوئے ہیں۔ (تلک الغرانیق العلی وان شفاعتہن لترجی) ’’یہ بلند مرتبہ دیویاں ہیں یعنی لات، عزی اور منات اور اللہ کے ہاں ان کی شفاعت کی یقینا توقع کی جا سکتی ہے۔‘‘ چنانچہ وہ بڑے غور سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت سننے لگے اور سورہ النجم کے اختتام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر مسلمانوں نے سجدہ کیا تو ساتھ ہی مشرکوں نے بھی سجدہ کیا، پھر یہ قصہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ اس کا اگلا حصہ یہ ہے کہ پھر یہ خبر مشہور ہوگئی کہ مسلمانوں اور کفار مکہ میں صلح وسمجھوتہ ہو گیا ہے، یہ خبرجب مہاجرین حبشہ کو ملی تو ان میں سے بعض مہاجر مکہ واپس آگئے۔ لیکن یہاں آکر معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط تھی، یہ واقعہ کئی لحاظ سے غلط ہے۔ (۱) ان آیات میں ’’اس شیطانی وسوسہ‘‘ سے پہلے بھی بتوں اور دیویوں کی مذمت مذکور ہے اور بعد میں بھی، لہٰذا درمیان میں بتوں کا یہ ذکر خیر کسی لحاظ سے بھی فٹ نہیں بیٹھتا۔ (۲) ان تمام روایات کی اسناد مرسل اور منقطع ہیں لہٰذا یہ روایات ساقط الاعتبار ہیں، اسی وجہ سے صحاح ستہ میں اس قسم کی کوئی روایت مذکور نہیں۔ (۳) تاریخی لحاظ سے یہ روایات اس لیے غلط ہیں کہ ہجرت کا واقعہ ۵ نبوی میں پیش آیا تھا اور جو مہاجر اس غلط افواہ کی بنا پر واپس مکہ آئے تھے وہ صرف تین ماہ بعد آئے تھے، جبکہ یہ سورت مدنی ہے اور ہجرت حبشہ سے واپسی اور اس سورت کے نزول کے درمیان کم از کم آٹھ نو سال کا عرصہ ہے۔