وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اور (اے پیغمبر) ہم نے تجھ سے پہلے جتنے رسول اور جتنے نبی بھیجے سب کے ساتھ یہ معاملہ ضرور پیش آیا کہ جونہی انہوں نے (اصلاح و سعادت کی) آرزو کی، شیطان نے ان کی آرزو میں کوئی نہ کوئی فتنہ کی بات ڈال دی اور پھر اللہ نے اس کی وسوسہ اندازیوں کا اثر مٹایا اور اپنی نشانیوں کو اور زیادہ مضبوط کردیا، وہ (سب کچھ) جاننے والا (اپنے سارے کاموں میں) حکمت والا ہے۔
رسول اور نبی کا فرق: اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اور نبی دو الگ الگ شخصیتیں ہوتی ہیں یعنی ہر رسول نبی تو ہوتا ہے جیسے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا: ﴿وَکَانَ رَسُوْلًا نَبِیًّا﴾ (مریم: ۵۱) یعنی موسیٰ علیہ السلام رسول بھی تھے اور نبی بھی۔ لیکن ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔ نبی اور رسول کا فرق سورئہ مائدہ (۶۷) میں واضح کیا جا چکا ہے۔ تمنیٰ کے ایک معنی ہے آرزو کرنا یا دل میں خیال کرنا۔ دوسرا معنی پڑھنا یا تلاوت کرنا بھی ہے۔ ترجمہ میں پہلے معنی کو اختیار کیا گیا ہے اس لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ نبی یا رسول جب کوئی آرزو کرتا ہے (کہ لوگ زیادہ سے زیادہ اس کی دعوت کو قبول کر لیں) تو شیطان اس خواہش کی تکمیل میں کئی رکاوٹیں کھڑی کر دیتا ہے، جیسے کفار کے کسی معجزہ کے مطالبہ پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے دل میں یہ خیال آنے لگا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کوئی ایسا معجزہ دکھا دے تو اس سے کئی فائدے حاصل ہو سکتے ہیں۔ یا مثلاً یہ کہ رؤسائے قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اگر آپ ان ناتواں اور حقیر لوگوں (یعنی کمزور مسلمانوں) کو اپنی مجلس سے کسی وقت اٹھا دیں تو ہم آپ کے پاس بیٹھ کر آپ کی دعوت کو غور سے سننے کو تیار ہیں۔ اور یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کے غلبہ کی خاطر کافروں کے اس مطالبہ پر غور کرنے کے لیے تیار بھی ہوگئے تھے تو ایسے موقعہ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بر وقت تنبیہ ہو جاتی تھی۔ اور اللہ تعالیٰ ایسی آیات نازل فرما دیتا جو خود اسے منظور ہوتا تھا۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ شیطان نبی یا رسول کی خواہش کی تکمیل کی راہ میں لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالنا شروع کر دیتا ہے۔ چنانچہ وہ اللہ کی آیات کی تکذیب کرتے۔ اسلام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے اور اس کے خلاف سازشیں کرنے لگتے ہیں یہ لوگ دو ہی قسم کے ہو سکتے ہیں: (۱) منافق۔ (۲) جن کے دل قبول حق کے سلسلہ میں پتھر کی طرح سخت ہو چکے ہوں۔ لیکن اللہ تعالیٰ بالآخر ان تمام کوششوں اور سازشوں کو ناکام بنا دیتا ہے۔ کسی نبی یا رسول کی آرزو میں شیطانی وسوسہ: اور اگر تمنی کا مطلب تلاوت کرنا سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نبی یا رسول کوئی آیت تلاوت کرتا ہے تو اس کا صحیح مفہوم سمجھنے کے سلسلہ میں شیطان لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈال کر انھیں شکوک وشبہات میں مبتلا کر دیتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے جب یہ آیت نازل فرمائی: (حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ الْمَیْتَۃُ) تو بعض لوگوں نے یہ اعتراض جڑ دیا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ اللہ کا مارا ہوا جانور تو حرام ہو اور انسان کا مارا ہوا (ذبح کیا ہوا) حلال ہو؟ یہ خالصتاً شیطانی وسوسہ تھا۔ اسی طرح جب یہ آیت نازل ہوئی: (اِنَّکُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ) ’’یعنی تم بھی اور اللہ کے سوا جنھیں تم پوجتے ہو سب جہنم کا ایندھن بنیں گے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ آیت پڑھ کر سنائی تو کافروں نے فوراً یہ اعتراض جڑ دیا کہ پرستش تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور سیدنا عزیر علیہ السلام اور فرشتوں کی بھی کی جاتی رہی ہے۔ تو کیا یہ ہستیاں بھی جہنم کا ایندھن بنیں گی؟ یہ بھی خالصتاً شیطانی وسوسہ تھا۔ ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ دوسری صریح اور محکم آیات نازل فرما کر شکوک وشبہات اور شیطانی وساوس کو دور فرما کر اپنے حکم کی وضاحت فرما دیتے ہیں۔ شیطانی وساوس کے لوگوں پر اثرات: (۱) شکوک و شبہات میں صرف وہی لوگ متلا ہوتے ہیں جو منافق یا ہٹ دھرم قسم کے کافر ہوتے ہیں۔ (۲)ایسی آیات سے ایمانداروں کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے۔ (۳) ایسی آیات دراصل سب لوگوں کے لیے ایک آزمائش اور جانچ ہوتی ہیں۔ جن سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ کون کس مقام پر کھڑا ہے؟ آیا وہ منافقوں سے تعلق رکھتا ہے یا اللہ پر ایمان لانے والوں سے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے حکمت والا ہے۔ سیدنا ابن عباس (فِیْ اُمْنِیَّتِہِ) کی تفسیر میں کہتے ہیں: یعنی جب وہ بات کرتے تو شیطان ان کی بات میں وسوسہ ڈال دیتا اور اللہ تعالیٰ شیطان کے ڈالے ہوئے وسوسے کو باطل کر دیتا تھا۔ (بخاری: ۴۷۴۱)