سورة الحج - آیت 47

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ ۚ وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغمبر) یہ لوگ تجھ سے عذاب کے مطالبہ میں جلدی مچا رہے ہیں (یعنی کہتے ہیں اگر سچ مچ کو عذاب آنے والا ہے تو کیوں نہیں آچکتا؟) اور اللہ کبھی ایسا کرنے والا نہیں کہ اپنا وعدہ پورا نہ کرے، مگر تیرے پروردگار کے یہاں ایک دن کی مقدار ایسی ہے جیسے تم لوگوں کی گنتی میں ایک ہزار برس۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہے ہیں کہ ملحد، کفار، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے والے تجھ سے عذاب طلب کرنے میں جلدی کر رہے ہیں کہ ان عذابوں کو جلد کیوں نہیں برپا کر دیا جاتا جن سے ہمیں ہر وقت ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔ اللہ فرماتا ہے، یاد رکھو! اللہ کا وعدہ اٹل ہے، قیامت اور عذاب آکر ہی رہیں گے، یہ لوگ اس لیے اپنے حساب سے جلدی کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے حساب میں ایک دن بھی ہزار سال کا ہے، اس اعتبار سے اگر وہ کسی کو ایک دن (۲۴ گھنٹے) کی مہلت دے تو وہ ہزار سال بنے اور اگر نصف دن کی مہلت تو وہ پانچ سو سال بنے، اسی طرح اگر چھ گھنٹے کی مہلت دے تو ڈھائی سو سال کا عرصہ عذاب کے لیے درکار ہے۔ اس طرح اللہ کی طرف سے کسی کو ایک گھنٹے کی مہلت مل جانے کا مطلب کم وبیش چالیس سال کی مہلت ہے۔ (ایسر التفاسیر) ایک دوسرے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی قدرت میں ایک دن اور ہزار سال برابر ہیں، اس لیے تقدیم وتاخیر سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ جلدی مانگتے ہیں، وہ دیر کرتا ہے تاہم یہ بات تو یقینی ہے کہ وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کر کے رہے گا۔