سورة الحج - آیت 39

أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جن (مومنوں) کے خلاف ظالموں نے جنگ کر رکھی ہے، اب انہیں بھی (اس کے جواب میں) جنگ کی رخصت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر سراسر ظلم ہورہا ہے اور اللہ ان کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب مدینہ سے بھی نکالے جانے لگے اور کفار مکے سے چڑھ دوڑے تب جہاد کی اجازت کی یہ آیت اتری۔ (تفسیر طبری) جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ شریف سے ہجرت کی، ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زبان سے نکلا کہ افسوس ان کفار نے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو وطن سے نکالا، یقیناً یہ تباہ ہوں گے پھر یہ آیت اتری تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جان لیا کہ جنگ ہو کر رہے گی۔ (احمد: ۱/ ۲۱۶) مکہ میں جب مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے تھے تو اس وقت بعض جرأت مند صحابہ رضی اللہ عنہم نے کافروں سے جنگ کرنے کی اجازت طلب کی تھی مگر اس وقت اللہ تعالیٰ نے انھیں اجازت نہیں دی تھی بلکہ صبر واستقامت سے ظلم برداشت کرنے کی تلقین ہی کی جاتی رہی۔ پھر جب مسلمان مدینہ میں منتقل ہوگئے۔ ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست کی داغ بیل پڑ گئی، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تعمیر ہوگئی، مہاجرین کے مسئلہ معاش کو مواخات کے ذریعہ کسی حد تک حل کر لیا گیا، یہودی قبائل اور مشرک قبائل سے امن وآتشی کے ساتھ آپس میں رہنے کے معاہدات طے پا گئے اور مسلمان اس قابل ہوگئے کہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں تو ان کافروں سے جہاد کرنے کی اجازت مل گئی چنانچہ ارشاد ہے: ﴿قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَ يُخْزِهِمْ وَ يَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَ يَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُؤْمِنِيْنَ۔ وَ يُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوْبِهِمْ وَ يَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ وَ اللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۔ اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا وَ لَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَ لَمْ يَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لَا رَسُوْلِهٖ وَ لَا الْمُؤْمِنِيْنَ وَلِيْجَةً وَ اللّٰهُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ﴾(التوبۃ: ۱۴۔ ۱۶) ’’ان سے لڑو، اللہ انھیں تمہارے ہاتھوں سزا دے گا اور رسوا کرے گا اور ان پر تمہیں غالب کرے گا، اور مومنوں کے کلیجے ٹھنڈے کرے گا، ساتھ ہی جسے چاہے گا توبہ کی توفیق دے گا، اللہ علم وحکمت والا ہے، کیا تم نے سوچ رکھا ہے کہ تم چھوڑ دیے جاؤ گے؟ حالانکہ اب تک وہ کھل کر سامنے نہیں آئے جو مجاہد ہیں، اللہ رسول اور مسلمانوں کے سوا کسی سے دوستی اور یگانگت نہیں کرتے، سمجھ لو کہ اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔‘‘ اللہ مدد پر قادر ہے: اس جملہ کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ اللہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ جہاد وقتال کے بغیر بھی مسلمانوں کی مدد کر کے انھیں غالب کر دے، اور دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہ مسلمانوں کی بے سروسامان، تنگدست، اور مٹھی بھر جماعت کو ان کفار پر غالب کر دے جو اسلحہ، مال و دولت اور تعداد غرض ہر لحاظ سے مسلمانوں سے بہت بڑھ کر ہیں، مزید برآں تمام مشرک قبائل اور یہود بھی ان کے معاون ومددگار ہیں۔