سورة الحج - آیت 35

الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَالصَّابِرِينَ عَلَىٰ مَا أَصَابَهُمْ وَالْمُقِيمِي الصَّلَاةِ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ان (نیاز مندان حق) کو جن کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل لرز اٹھتے ہیں، جو ہر طرح کی مصیبتوں میں صبر کرنے والے ہیں، جو نماز کے پڑھنے اور درستی میں کوشاں رہتے ہیں جو اس رزق میں سے کہ اللہ تعالیٰ نے دے رکھا ہے (نیک کاموں کی راہ میں) خرچ کرتے رہتے ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

ان کے دل اس بات سے سہم جاتے ہیں کہ کوئی کام اللہ کی مرضی اور منشا کے خلاف سرزد ہو جائے شرکیہ افعال بجا لانا تو بڑی دور کی بات ہے۔ اس آیت میں مصیبت پر صبر کرنا، نماز کے قیام اور خرچ کرنے کا ذکر اس لحاظ سے ہے کہ سفر حج میں عموماً تکلیفیں بھی آتی ہیں، نمازوں کے قضا ہونے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے۔ اور خرچ بھی خاصا اُٹھتا ہے لیکن جن کے دل نرم اور خوف الٰہی سے پر ہوتے ہیں وہ کٹھن کاموں اور حکم الٰہی کے پابند ہیں مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں، فریضہ الٰہی اور اللہ کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ اور اللہ کے دیے ہوئے سے خرچ کرتے ہیں۔ اپنے گھر والوں کو، فقیروں محتاجوں کو، اور تمام مخلوق کو جو بھی ضرورت مند ہوں، سب کے ساتھ سلوک و احسان سے پیش آتے ہیں۔ اللہ کی حدود کی حفاظت کرتے ہیں منافقوں کی طرح نہیں کہ ایک کام کریں اور ایک چھوڑ دیں، لہٰذا فرما دیا کہ اللہ کے حضور متواضع رہنے والوں میں یہ سب خوبیاں موجود ہوتی ہیں۔ یہ مطلب تو ربط مضمون کے لحاظ سے ہے تاہم ان کا حکم ہر حالت میں عام ہے۔