سورة الحج - آیت 33

لَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ان (چار پایوں) میں ایک مقررہ وقت تک تمہارے لیے (طرح طرح کے) فائدے ہیں، پھر (اس) خانہ قدیم تک پہنچا کر ان کی قربانی کرنی ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

قربانی کے جانور سے فائدہ اٹھانا: یہ مقررہ وقت وہ وقت ہے جب قربانی کا جانور حرم کی حدود میں یا مذبح میں پہنچ جائے۔ ان قربانی کے جانوروں سے بھی کئی طرح کے فائدے اٹھائے جا سکتے ہیں، مثلاً بوقت ضرورت ان پر سوار ہونا، ان کا دودھ دوہنا، ان کی اون حاصل کرنا، ان سے نسل چلانا وغیرہ وغیرہ۔ ایک صحیح حدیث سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ ایک آدمی ایک قربانی کا جانور اپنے ساتھ ہانکے لے جا رہا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: اس پر سوار ہوجا، اس نے کہا یہ حج کی قربانی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر سوار ہو جا۔ (بخاری: ۱۶۹۰) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کے جانوروں سے فائدہ حاصل کرنا ان کی تعظیم کے منافی نہیں بلکہ تعظیم کا تعلق دل سے ہے۔ دل میں ان اشیاء کی محبت اور قدر ضرور ہونی چاہیے۔ نیز قربانی کے جانوروں سے کوئی فائدہ حاصل نہ کرنا مشرکوں کا کام تھا کہ جس جانور کو کسی بت کے نام منسوب کرتے تو اس سے فائدہ حاصل کرنے کو گناہ سمجھتے تھے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہ وضاحت فرما دی۔