سورة الحج - آیت 26

وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے ابراہیم کے لیے خانہ کعبہ کی جگہ مقرر کردی (اور حکم دیا) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کر اور میرا یہ گھر ان لوگوں کے لیے پاک رکھ جو طواف کرنے والے ہوں، عبادت میں سرگرم رہنے والے ہوں، رکوع وسجود میں جھکنے والے ہوں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

مسجد حرام کی اولین بنیاد توحید ہے: سیّدنا آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے کعبہ کو تعمیر کیا تھا۔ ایک حدیث میں وارد ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ابو ذر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ حضور سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ فرمایا: ’’مسجد حرام‘‘ میں نے کہا پھر؟ فرمایا بیت المقدس، میں نے کہا ان دونوں کے درمیان کس قدر مدت کا فاصلہ ہے۔ فرمایا چالیس سال کا۔ (بخاری: ۳۳۶۶) بیت الحرام کے نشانات اب زمین بوس ہو چکے تھے، اللہ تعالیٰ نے آندھی چلائی، جس سے اوپر کی مٹی اور ریت اُڑ کر دور چلی گئی اور کعبہ کی بنیادیں ننگی اور ظاہر ہو گئیں۔ انہی بنیادوں پر سیّدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ساتھ ملا کر کعبہ کی تعمیر شروع کی تھی اور سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کو ہدایت کی گئی تھی کہ اس گھر کی بنیادیں خالص توحید پر رکھو۔ کوئی شخص یہاں آکر اللہ کی عبادت کے سوا کوئی مشرکانہ رسم بجا نہ لائے۔ لیکن مشرکین مکہ نے جو دین ابراہیمی کی پیروی کے مدعی تھے اس ہدایت کی ایسی نافرمانی کی کہ وہاں تین سو ساٹھ بت لا کھڑے کیے بالآخر فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے گھر کو بتوں کی نجاست سے پاک فرمایا۔ مساجد کی صفائی سے مراد صرف ظاہری صفائی ہی نہیں بلکہ شرک سے صفائی بھی ہے۔ اللہ کے گھروں یعنی مساجد کو صاف ستھرا رکھنا اتنا افضل عمل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اولوالعزم انبیاء کو خاص طور پر اس کام کی ہدایت کی۔ یعنی کفر، بت پرستی اور دیگر نجاستوں سے ان کو پاک رکھو، اور اسے خاص کر دو ان کے لیے جو موحد ہیں، طواف وہ عبادت ہے جو ساری دنیا میں بجز بیت اللہ کے میسر ہی نہیں اور کسی اور جگہ یہ عبادت بجا لانا جائز بھی نہیں۔ پھر طواف کے ساتھ نماز کو ملایا قیام، رکوع، سجدے کا ذکر فرمایا۔ اس لیے کہ جس طرح طواف کعبہ کے ساتھ مخصوص ہے، نماز کا قبلہ بھی یہی ہے۔ نماز میں رخ بھی اسی طرف ہوتا ہے، ہاں اس حالت میں کہ انسان کو معلوم نہ ہو یا جہاد میں ہو یا سفر میں نفل نماز پڑھ رہا ہو تو بے شک قبلہ کی طرف منہ نہ ہونے کی حالت میں بھی نماز ہو جائے گی۔ (واللہ اعلم)