سورة الحج - آیت 15

مَن كَانَ يَظُنُّ أَن لَّن يَنصُرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ لْيَقْطَعْ فَلْيَنظُرْ هَلْ يُذْهِبَنَّ كَيْدُهُ مَا يَغِيظُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جو آدمی (مایوس ہوکر) ایسا خیال کر بیٹھتا ہے کہ اللہ دنیا اور آکرت میں اس کی مدد کرنے والا نہیں تو (اس کے لیے زندگی کی کوئی راہ باقی نہ رہی) اسے چاہیے ایک رسی چھت تک لے جاکر باندھ دے، اور (اس میں گردن لٹکا کر زمین سے) رشتہ کاٹ لے، پھر دیکھے اس تدبیر نے اس کا غم و غصہ دور کردیا یا نہیں؟

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اس آیت میں ایسا خیال کرنے والا وہی منافق ہے، جو کفر و اسلام کی سرحد پر کھڑا ہو کر عبادت کرتا ہے۔ مگر اللہ کی رضا پر راضی و شاکر نہیں رہتا، اور حقیر دنیوی مفادات کی خاطر اللہ کو چھوڑ کر دوسرے آستانوں پر جاتا اور در در کی ٹھوکریں کھاتا اور خاک چھانتا پھرتا ہے پھر بھی اسے وہ مفادات حاصل نہیں ہوتے تو الٹا اللہ اور اس کی تقدیر کو کوسنے لگتا ہے۔ ایسا شخص جو یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد نہ کرے، کیونکہ اس کے غلبہ اور فتح سے اسے تکلیف ہوتی ہے۔ ایسا شخص غصہ میں ہار ہی جائے بلکہ اسے چاہیے کہ اپنے مکان کی چھت میں رسی باندھ کر اپنے گلے میں پھندا ڈال کر اپنے تئیں ہلاک کر دے نا ممکن ہے کہ اللہ کی مدد اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نہ آئے، گو یہ جل جل کر مر جائیں۔ مگر ان کی خیال آرائیاں غلط ثابت ہو کر ہی رہیں گی۔ ربانی امداد آسمان سے نازل ہو کر ہی رہے گی۔ مطلب یہ ہے کہ اگر اس کے بس میں ہے تو ایک رسا لے کر آسمان پر چڑھ جائے اور آسمان سے جو وحی یا مدد آتی ہے۔ اس کا سلسلہ ختم کر دے، پھر دیکھیں کہ ان کی ایسی تدبیروں سے وہ وحی الٰہی اور نصرت ربانی آنا بند ہوجاتی ہے۔ جس پر وہ اس قدر پیچ و تاب کھا رہے ہیں۔