سورة الحج - آیت 12

يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُ وَمَا لَا يَنفَعُهُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

وہ اللہ کے سوا ان چیزوں کو (اپنی حاجت روائی کے لیے) پکارتے ہیں جو نہ تو انہیں نقصان پہنچا سکتی ہیں نہ نفع، یہی گمراہی ہے جسے سب سے زیادہ گہری گمراہی سمجھنا چاہیے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

عبدالرحمن کا یہ بیان ہے کہ یہ حالت منافقوں کی ہے۔ دنیا اگر مل گئی تو دین سے خوش ہیں۔ جہاں نہ ملی یا کوئی امتحان آ گیا۔ فوراً پلہ جھاڑ لیا کرتے ہیں اور مرتد کافر ہو جاتے ہیں۔ (تفسیر طبری) یہ پورے بدنصیب ہیں یہ اپنی دنیا و آخرت دونوں تباہ کر لیتے ہیں۔ یعنی جن ٹھاکروں، بتوں، اور بزرگوں سے یہ مدد مانگتے ہیں، جن سے فریاد کر تے ہیں، جن کے پاس اپنی حاجتیں لے جاتے ہیں، جن سے روزیاں مانگتے ہیں وہ تو محض عاجز ہیں، نفع و نقصان ان کے ہاتھ ہی نہیں۔ سب سے بڑی گمراہی یہی ہے۔ دنیا میں بھی ان کی عبادت سے نقصان، نفع سے پہلے ہی ہو جاتا ہے، یعنی ایمان ضائع ہو جاتا ہے، اور آخرت میں ان کو جو نقصان پہنچے گا۔ اس کا تو کہنا ہی کیا۔