سورة الأنبياء - آیت 101

إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُم مِّنَّا الْحُسْنَىٰ أُولَٰئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(مگر) جن لوگوں کے لیے ہم نے پہلے سے بھلائی کا حکم دے دیا تو وہ یقینا دوزخ سے دور کردیے گئے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

کون سے معبود جہنم سے بچائے جائیں گے: جب یہ آیت نازل ہوئی کہ مشرکین سب اپنے معبودوں سمیت جہنم کا ایندھن بنیں گے تو مشرک کہنے لگے کہ ہم تو ان بتوں کے علاوہ فرشتوں کو بھی پوجتے ہیں اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام و عزیر علیہ السلام اور بہت سے صالحین کی عبادت کی جاتی ہے۔ اس سوال کا جواب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیا کہ جو شخص خود بھی یہ چاہتا ہے کہ اس کی عبادت کی جائے وہ یقینا جہنم میں جائے گا اور اسی سوال کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں نازل فرما دیا۔ غرض ہر دو جواب کی رو سے، فرشتے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، حضرت عزیر علیہ السلام اور ان کے علاوہ تمام ہستیاں بھی مستثنیٰ قرار دے دی گئیں جو خود تو اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اور صرف اللہ ہی کے عبادت گزار تھے لیکن بعد میں لوگوں نے انھیں پوجنا شروع کردیا۔ جیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ سیدنا نوح علیہ السلام کی قوم جن پانچ بتوں ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو پکارتے تھے وہ حقیقتاً اللہ کے عبادت گزار بندے تھے اور انھیں دیکھ کر اللہ یاد آتا تھا۔ بعد میں شیطان نے ان لوگوں کو یہ پٹی پڑھائی کہ ان بزرگوں کے مجسمے بنا کر اپنے پاس رکھ لیا کرو تاکہ تمھیں اللہ کی عبادت میں وہی مزا آئے جو ان بزرگوں کی موجودگی میں آتا تھا چنانچہ ابتداءً ان کے مجسمے اس غرض سے تراشے گئے تھے پھر بعد میں ان لوگوں نے انھی مجسموں کی عبادت شروع کر دی۔ (بخاری: ۳۴۴۶) نیک لوگ جن کی نیکیوں کی وجہ سے اللہ کی طرف سے ان کے لیے نیکی، سعادت ابدی اور جنت کی بشارت ٹھہرائی جا چکی ہے، یہ جہنم سے دور ہی رہیں گے۔ انھی الفاظ سے یہ مفہوم بھی واضح طور پر نکلتا ہے کہ جو لوگ دنیا میں یہ خواہش رکھتے ہوں گے کہ ان کی قبروں پر قبے بنیں اور لوگ انھیں قاضی الحاجات سمجھ کر ان کے نام کی نذر نیاز دیں، اور ان کی پرستش کریں، یہ بھی پتھر کی مورتیوں کی طرح جہنم کا ایندھن ہوں گے کیونکہ غیر اللہ کی پرستش کے داعی (سَبَقَتْ لَہُمْ مِّنَا الْحُسْنٰی) کے زمرہ میں یقیناً نہیں آتے۔