فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ۚ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ۚ وَكُنَّا فَاعِلِينَ
پس ہم نے سلیمان کو اس بات کی پوری سمجھ دے دی اور ہم نے حکم دینے کا منصب اور (نبوت کا) علم ان میں سے ہر ایک کو عطا فرمایا تھا، نیز ہم نے پہاڑوں کو داؤد کے لیے مسخر کردیا تھا، وہ اللہ کی پاکی کی صدائیں بلند کرتے تھے اور اسی طرح پرندوں کو بھی، اور ہم (ایسا ہی) کرنے والے تھے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور یہ فیصلہ دیا کہ بکریاں کچھ عرصے کے لیے کھیتی کے مالک کو دے دی جائیں مگر یہ بکریاں کھیتی والے کے پاس بطور رہن ہوں گی۔ کھیتی والا ان کی پرورش بھی کرے گا اور ان سے دودھ اور اون وغیرہ کے فوائد بھی حاصل کرے گا اور اس دوران بکریوں والا کھیتی کی نگہداشت اور اس کی آبپاشی کرے۔ تاآنکہ وہ کھیتی اپنی پہلی سی حالت پر آجائے اور جب کھیتی پہلی حالت میں آجائے تو بکریوں والے کو اس کی بکریاں واپس کر دی جائیں، اس فیصلہ سے کھیتی والے کے نقصان کی بھی تلافی ہوجاتی تھی۔ اور بکریوں والے کا بھی کچھ زیادہ نقصان نہیں ہوتا تھا لہٰذا سلیمان علیہ السلام کے اس فیصلے کو داؤد علیہ السلام نے بھی تسلیم کر لیا اور اپنے فیصلے سے رجوع کر لیا، یہی وہ فیصلہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ فیصلہ سلیمان علیہ السلام کو ہم نے سجھایا تھا۔ حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام دونوں کو قوت فیصلہ اور علم دیا تھا۔ پھر اللہ نے سلیمان علیہ السلام کی تو تعریف کی اور داؤد علیہ السلام پر ملامت نہیں کی (اگرچہ وہ فیصلہ درست نہ تھا) اور قرآن میں اللہ تعالیٰ ان دونوں پیغمبروں کا ذکر نہ کرتا تو میں سمجھتا ہوں کہ قاضی لوگ تباہ ہو جاتے مگر اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کی درست فیصلہ پر تعریف اور داؤد علیہ السلام کو (ان کی اجتہادی غلطی پر) معذور رکھا)۔ (بخاری: ۳۴۲۷) اجتہاد اگر درست ہو تو مجتہد کے لیے دوہرا اجر ہے اور غلطی ہوجائے تو بھی ایک اجر ہے۔ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب حاکم اجتہاد کرے اور وہ فیصلہ درست ہو تو اس کو دو اجر ملیں گے اگر (بتقضائے بشریت) فیصلہ میں غلطی کر جائے تو بھی اس کو ایک اجر ملے گا۔ ‘‘ (بخاری: ۷۳۵۲) تین قسم کے قاضی: سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک جنتی ہے اور دو جہنمی، جنتی وہ قاضی ہے جو حق پہچان لے اور اس کے مطابق فیصلہ دے۔ مگر جو شخص حق پہچاننے کے باوجود خلاف حق فیصلہ دے وہ جہنمی ہے۔ اسی طرح وہ بھی جہنمی ہے جو بغیر علم کے لوگوں کے فیصلے کرنے بیٹھ جائے۔‘‘ (ابوداؤد: ۳۵۷۳) سیدنا داؤد علیہ السلام کی خوش الحانی: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کو وہ نورانی گلا عطا فرمایا گیا تھا اور آپ ایسی خوش آوازی اور خلوص کے ساتھ زبور پڑھتے تھے کہ پرندے بھی اپنی پرواز چھوڑ کر تھم جاتے تھے اور اللہ کی تسبیح بیان کرنے لگتے تھے۔ اسی طرح پہاڑ بھی، ایک روایت میں ہے کہ رات کے وقت حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ تلاوت قرآن کریم کر رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں سے گزر ہوا۔ تو ان کی آواز سن کر ٹھہر گئے اور دیر تک آپ کی تلاوت سنتے رہے جب انھوں نے تلاوت ختم کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو آل داؤد کی آوازوں کی شیرنی کا ایک حصہ دیے گئے ہیں۔ (بخاری: ۵۰۴۸) جب حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو یہ معلوم ہوا تو فرمانے لگے ’’اے اللہ کے رسول! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ میری قرأت سن رہے ہیں تو میں اور اچھی طرح پڑھتا۔‘‘ (حاکم اور ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے۔ [۳/۴۶۶])