وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ ۚ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ مِن مَّعْرُوفٍ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور جو لوگ تم میں سے وفات پائیں اور اپنے پیچھے بیوہ عورتیں چھوڑ جائیں اور (مرنے سے پہلے اس طرح کی) وصیت کرجائیں کہ برس دن تک انہیں نان و نفقہ دیا جائے اور گھر سے نہ نکالی جائیں اور پھر ایسا ہو کہ وہ (اس مدت سے پہلے) گھر چھوڑ دیں (اور دوسرا نکاح کرلیں یا نکاح کی بات چیت کریں) تو جو کچھ وہ جائز طریقہ پر اپنے لیے کریں، اس کے لیے تم پر کوئی گناہ عائد نہ ہوگا (کہ تم انہیں وصیت کی تعمیل کے خیال سے روکو اور سال بھر تک سوگ منانے پر مجبور کرو) یاد رکھو، اللہ سب پر غالب اور (اپنے ہر کام میں) حکمت رکھنے والا ہے
یہ حکم ابتدائے اسلام میں نازل ہوا تھا کہ مرتے وقت مرد اپنی بیویوں کے متعلق اپنے ورثاء کو ایسی وصیت کر جائیں بعد میں جب بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن مقرر ہوگئی اور آیت میراث کی رو سے بیوہ کا خاوند کے ترکہ میں حصہ مقرر ہوگیا تو آیت کا یہ حکم منسوخ ہوگیا اب بیوہ کے لیے تو یہ حکم ہوا کہ وہ بس عدت اپنے شوہر کے ہاں گزارے بعد میں وہ آزاد رہے۔ اس دوران نان و نفقہ بھی وارثوں کے ذمہ ہوگا اور سال بھر کے خرچہ کا مسئلہ میراث میں حصہ ملنے سے حل ہوگیا۔