سورة طه - آیت 47

فَأْتِيَاهُ فَقُولَا إِنَّا رَسُولَا رَبِّكَ فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا تُعَذِّبْهُمْ ۖ قَدْ جِئْنَاكَ بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكَ ۖ وَالسَّلَامُ عَلَىٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَىٰ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

تم اس کے پاس (بے دھڑک) جاؤ اور کہو : ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے آئے ہیں۔ پس بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ رخصت کردے اور ان پر سختی نہ کر، ہم تیرے پروردگار کی نشانی لے کر تیرے سامنے آگئے، اس پر سلامتی ہو جو سیدھی راہ اختیار کرے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

فرعون کو دعوت دینے کے پانچ نکات: گویا فرعون کے لیے پانچ نکاتی دعوت کا پروگرام ان پیغمبروں کو دیا گیا۔ ان میں سے چار تو دعوت دین کی بنیادی نکات تھے اور ایک مطالبہ تھا۔ (۱) اسے کہنا کہ ہم تمھارے پروردگار کے رسول ہیں۔ وہ ذات وہ ہے جو ہر چیز کا، ہمارا اور خصوصاً تمھارا بھی پروردگار ہے۔ (۲)ہم اسی پروردگار کے بھیجے ہوئے تیرے پاس آئے ہیں خود نہیں آئے گویا اس جملہ میں توحید و رسالت کا ذکر آگیا۔ (۳)بنی اسرائیل پر ظلم کرنا چھوڑ دے اور انھیں اپنی غلامی سے آزاد کرکے ہمارے ہمراہ کر دے۔ (۴) جو شخص راہ ہدایت یعنی اللہ کی توحید ہماری رسالت پر ایمان لے آئے گا۔ اور اللہ ہی کی عبادت اور ہماری اطاعت کرے گا اس کے لیے دنیا میں بھی امن و سلامتی ہوگی اور آخرت میں بھی۔ (۵) ہمیں بذریعہ وحی یہ خبر دی گئی ہے کہ جو شخص ہماری دعوت سے منہ پھیرے گا آخرت میں اس کے لیے عذاب ہوگا۔ گویا چوتھے اور پانچویں جزو میں ایمان کے نہایت اہم جزو ایمان بالآخرت کی دعوت پیش کی گئی ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بات کہہ دینا کہ ہمارا یہ دعویٰ رسالت بے دلیل نہیں بلکہ ہم تیرے پاس تیرے رب کی نشانی لے کر آئے ہیں۔