إِذْ رَأَىٰ نَارًا فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّي آتِيكُم مِّنْهَا بِقَبَسٍ أَوْ أَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى
جب اس نے (دور سے) آگ دیکھی تو اپنے گھر کے لوگوں سے کہا، ٹھہرو، مجھے آگا دکھائی دی ہے، میں جاتا ہوں ممکن ہے تمہارے لیے ایک انگارا لے آؤں یا (کم از کم) الاؤ پر کوئی راہ دکھانے والا ہی مل جائے۔
سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا آگ لینے جانا: یہاں سے موسیٰ علیہ السلام کے قصہ کا آغاز ہو رہا ہے یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ آپ اس مدت کو پورا کر چکے تھے جو آپ کے اور آپ کے خسر صاحب کے درمیان طے ہوئی تھی۔ اور آپ اپنے اہل و عیال کو لے کر دس سال سے زیادہ عرصے کے بعد اپنے وطن مصر کی طرف جا رہے تھے۔ دوران سفر آپ کو رات آگئی۔ سردی کا موسم تھا۔ سخت اندھیرا تھا لہٰذا آپ راستہ بھی بھول گئے تھے، کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کریں، سخت پریشانی کا عالم تھا۔ بیوی حاملہ تھیں۔ آپ نے ادھر اُدھر نظریں دوڑائیں تو دائیں جانب کے پہاڑ پر کچھ آگ سلگتی دکھائی دی۔ جو اس بات کی علامت تھی کہ وہاں کوئی آدمی بھی موجود ہوگا۔ چنانچہ آپ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ تم تو یہیں ٹھہرو میں وہاں آگ والوں کے پاس جاتا ہوں تاکہ ان سے راستہ کا اتا پتا پوچھ سکوں۔ دوسرے کچھ آگ کے انگارے بھی لیتا آؤں تاکہ تم آگ تاپ سکو۔