سورة الكهف - آیت 86

حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ وَوَجَدَ عِندَهَا قَوْمًا ۗ قُلْنَا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَن تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَن تَتَّخِذَ فِيهِمْ حُسْنًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اور پچھم کی طرف نکل کھڑا ہوا) یہاں تک کہ (چلتے چلتے) سورج کے ڈوبنے کی جگہ پہنچ گیا، وہاں اسے سورج ایسا دکھائی دیا جیسے ایک سیاہ دلدل کی جھیل میں ڈوب جاتا ہے اس کے قریب ایک گروہ کو بھی آباد پایا۔ ہم نے کہا اے ذوالقرنین (اب یہ لوگ تیرے اختیار میں ہیں) تو چاہے انہیں عذاب میں ڈالے چاہے اچھا سلوک کرکے اپنا بنا لے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تبع اور ذوالقرنین کے بارہ میں میں نہیں جانتا کہ وہ نبی تھے یا نہیں۔ (مستدرک حاکم: ۱/ ۳۶) ذوالقرنین کی پہلی مہم: ذوالقرنین نے پہلا سفر مغربی آخری حد تک کیا، ذوالقرنین جب مغربی جہت میں ملک پر ملک فتح کرتا ہوا اس مقام پر پہنچ گیا جہاں آخری آبادی تھی وہاں گدلے پانی کا چشمہ یا سمندر تھا جو نیچے سے سیاہ معلوم ہوتا تھا اسے ایسا محسوس ہوا کہ گویا سورج اس چشمے میں ڈوب رہا ہے۔ ساحل سمندر سے یا دور سے جس کے آگے حد نظر تک کچھ نہ ہو غروب شمس کا نظارہ کرنے والوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سورج سمندر میں یا زمین میں ڈوب رہا ہے۔ حالانکہ وہ اپنے مقام آسمان پر ہی ہوتا ہے۔ وہاں جس قوم سے ذوالقرنین کا واسطہ پڑا وہ جاہل اور کافر قسم کے لوگ تھے اور اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کو یہ اختیار دیا کہ چاہے تو انھیں قتل کر دے یا کوئی سخت رویہ اختیار کرے یا اللہ کے فرمانبردار بن جانے کی دعوت دے اور ان سے نرم برتاؤ کرے۔