سورة الكهف - آیت 46

الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

مال و دولت اور آل اولاد اور دنیوی زندگی کی دلفریبیاں ہیں ( مگر چند روزہ، ناپائیدار) اور جو نیکیاں باقی رہنے والی ہیں تو وہی تمہارے پروردگار کے نزدیک بہ اعتبار ثواب کے بہتر ہیں اور وہی ہیں جن کے نتائج سے بہتر امید رکھی جاسکتی ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یہ مال و دولت اور بیٹے وغیرہ قبیلہ و خاندان، انسان کے لیے دلچسپی کا سامان ضرور ہیں مگر اس پر فریفتہ نہ ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ چیزیں تو دنیائے فانی کی عارضی زینت ہیں۔ آخرت میں یہ چیزیں کچھ کام نہ آئیں گی۔ اسی لیے آگے فرمایاکہ آخرت میں کام آنے والے عمل تو وہ ہیں جو باقی رہنے والے ہیں۔ باقیات صالحات: باقی رہنے والی نیکیاں کون کون سی ہیں؟ کسی نے نماز روزہ کو، کسی نے تسبیح و تمحید اور تکبیر و تہلیل کو اور کسی نے بعض دیگر اعمال کو اس کا مصداق قرار دیا۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ تمام فرائض و واجبات او رسنن اور نوافل باقیات صالحات کے مصداق میں داخل ہیں۔ منہیات سے اجتناب بھی ایک عمل صالح ہے جس پر اللہ سے اجر و ثواب کی اُمید ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کلمات (سبحان اللہ والحمد للہ ولا الٰہ الا اللہ و اللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ) باقیات صالحات ہیں۔ (مسند احمد: ۱/ ۷۱) بعض دفعہ انسان نیک اعمال کی داغ بیل ڈال جاتا ہے جس سے لوگ مدتوں مستفیض ہوتے رہتے ہیں مثلاً کوئی دینی مدرسہ قائم کر جائے۔ رفاہِ عام کا کوئی کام کر جائے، جیسے کوئی کنواں کھدوا جائے یا کوئی سرائے یا ہسپتال قائم کر جائے کہ یہی چیزیں اس لائق ہیں جن میں انسان کو اپنی کوششیں صرف کرنا چاہیں۔ دنیا کی فانی چیزوں میں مستغرق نہ ہونا چاہیے۔