سورة الكهف - آیت 37

قَالَ لَهُ صَاحِبُهُ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَكَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہ سن کر اس کے دوست نے کہا اور باہم گفتگو کا سلسلہ جاری تھا، کیا تم اس ہستی کا انکار کرتے ہو جس نے تمہیں پہلے مٹی سے اور پھر نطفہ سے پیدا کیا اور پھر آدمی بنا کر نمودار کردیا؟

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اس کی یہ باتیں سن کر اس کے مومن ساتھی نے اسے وعظ و تبلیغ کے انداز میں سمجھایا کہ تو اپنے خالق کے ساتھ کفر کا ارتکاب کر رہا ہے، جس نے تجھے مٹی اور قطرۂ پانی (منی) سے پیدا کیا۔ ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام چونکہ مٹی سے بنائے گئے اس لیے انسان کی اصل مٹی ہی ہوئی۔ پھر قریبی سبب وہ نطفہ بنا جو باپ کی صلب سے نکل کر رحم مادر میں گیا۔ وہاں نومہینے اس کی پرورش کی۔ پھر اسے پورا انسان بنا کر ماں کے پیٹ سے نکالا۔ بعض کے نزدیک مٹی سے پیدا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان جو خوراک کھاتا ہے، وہ سب زمین سے یعنی مٹی سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ اسی خوراک سے وہ نطفہ بنتا ہے جو عورت کے رحم میں جا کر انسان کی پیدائش کا ذریعہ بنتا ہے۔ یوں بھی ہر انسان کی اصل مٹی ہی قرار پاتی ہے۔ ناشکرے انسان کو اس کی اصل یاد دلا کر اسے اس کے خالق اور رب کی طرف توجہ دلائی جار ہی ہے کہ تو اپنی حقیقت اور اصل پر غور کر، اور رب کے احسانات کو دیکھ کہ تجھے اس نے کیا کچھ بنا دیا اور اس عمل تخلیق میں اس کا کوئی شریک اور مدد گار نہیں، یہ سب کچھ کرنے والا صرف اور صرف وہ اللہ ہی ہے۔ جس کو ماننے کے لیے توتیار نہیں ہے۔ آہ! یہ انسان کس قدر نا شکرا ہے؟