وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا
اور جو لوگ صبح شام اپنے پروردگار کو پکارتے رہتے ہیں اور اس کی محبت میں سرشار ہیں تو انہی کی صحبت پر اپنے جی کو قانو کرلو، ان کی طرف سے کبھی تمہاری نگاہ نہ پھرے کہ دنیوی زندگی کی رونقیں ڈھونڈنے لگو، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا (یعنی ہمارے ٹھہرائے ہوئے قانون نتائج کے مطابق جس کا دل غافل ہوگیا) اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے پڑگیا تو ایسے آدمی کی باتوں پر کان نہ دھرو۔ اس کا معاملہ حد سے گزر گیا ہے۔
غریب و مخلص مومنوں سے وابستہ رہنے کی ہدایت: یعنی یہ صبح و شام اللہ کے ذکر میں مشغول رہنے والے اور اللہ کی رضا چاہنے والے لوگ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس بیٹھے رہا کرو، خواہ وہ امیر ہوں یا فقیر، خواہ رذیل ہوں خواہ شریف، خواہ قوی ہوں، خواہ ضعیف۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم چھ آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ میرے علاوہ بلال، ابن مسعود، ایک ہذلی اور دو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تھے۔ قریش مکہ نے خواہش ظاہر کی کہ ان لوگوں کو اپنے پاس سے ہٹا دو تاکہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں آیا کہ چلو شاید میری بات سننے سے ان کے دلوں کی دنیا بدل جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے سختی کے ساتھ ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ (مسلم: ۴۶/ ۲۴۱۳) یعنی یہی لوگ قیمتی سرمایہ ہیں، قریشی سرداروں کے مطالبہ کو اور ان کے ٹھاٹھ باٹھ مت دیکھیے کیونکہ ان کے اس مطالبہ سے ہی یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ ایمان لانے میں کس حد تک مخلص ہیں۔ جو شخص آخرت کی جوابدہی پر ایمان ہی نہیں رکھتا، وہ تو جدھر اور جس طرح بھی اپنا ذاتی مفاد دیکھے گا فوراً ادھر جھک جائے گا۔ اس کا کوئی کام حد اعتدال تک محدود نہ رہے گا۔ لہٰذا ایسے لوگوں کی بات ہرگز نہ مانیے۔