هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ
پھر یہ لوگ کس بات کے انتظام میں ہیں؟ کیا اس بات کے منتظر ہیں کہ خدا ان کے سامنے نمودار ہوجائے (اور اس طرح نمودار ہوجائے کہ) بادل اس پر سایہ کیے ہوں اور فرشتے (صف باندھے کھڑے) ہوں اور جو کچھ ہونا ہے ہوچکے؟ (اگر اسی بات کے منتظر ہیں تو یاد رکھیں یہ بات دنیا میں تو ہونے والی نہیں) اور تمام کاموں کا سر رشتہ اللہ ہی کے ہاتھ ہے
قطعی نشانی پر ایمان لانا بے سود ہے: یا تو اس سے قیامت کا منظر مراد ہے ۔ یا وہ یقین مراد ہے جو موت كو سامنے دیكھ كر پیدا ہوتا ہے كہ ایسے وقت پر ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ ایمان لانے کی قدروقیمت تو تب ہے جب انسان غیب کے امور پر ایمان لے آئے اور یہی انسان کی آزمائش ہے ۔ اور یہی اللہ کی مشیت ہے کہ جب کوئی حتمی علامت یعنی سورج کا مغرب سے نکلنا، یا موت یا قیامت آگئی تو پھر تو معاملہ ہی ختم ہوجائے گا۔ اللہ اور فرشتے: اللہ کا دیدار تو حضرت موسیٰ جیسے پیغمبر بھی نہ سہار سکے تو ایك عام انسان کس کھیت کی مولی ہیں۔ رہے فرشتے تو وہ تو اللہ کے حکم سے یا تو عذاب الٰہی لے کر یا موت کا پیغام لیکر آتے ہیں۔ یا نبیوں پر وحی لیکر آتے ہیں اس لیے چاہیے کہ اسلام کو قبول کرنے میں دیر نہ کی جائے تاکہ آخرت سنور جائے۔