سورة الكهف - آیت 17

وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَت تَّزَاوَرُ عَن كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَإِذَا غَرَبَت تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ مِّنْهُ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ ۗ مَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۖ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور وہ جس غار میں جاکر بیھے وہ اس طرح واقع ہوئی کہ جب سورج نکلے تو تم دیکھو کہ ان کے داہنے جانب سے ہٹا ہوا رہتا ہے اور جب ڈوبے تو بائیں طرف کترا کر نکل جاتا ہے (یعنی کسی حال میں بھی اس کی شعاعیں اندر نہیں پہنچتیں) اور وہ اس کے اندر ایک کشادہ جگہ میں پڑے ہیں۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے (کہ انہوں نے حق کی خاطر دنیا اور دنیا کے سارے علاقے چھوڑ دیئے) جس کسی پر وہ (کامیابی کی) راہ کھول دے تو وہی راہ پر ہے اور جس پر گم کردے تو تم کسی کو اس کا کارساز اس کا راہ دکھانے والا نہ پاؤ گے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یعنی سورج طلوع کے وقت دائیں جانب کو اور غروب کے وقت بائیں جانب کو کترا کے نکل جاتا اور یوں دونوں وقتوں میں ان پر دھوپ نہ پڑتی۔ وہ اس سے فراخی میں ہیں انھیں دھوپ کی تپش نہیں پہنچتی ورنہ ان کے بدن اور کپڑے گل سڑ جاتے۔ یہ اللہ کی ایک نشانی ہے کہ رب تعالیٰ نے انھیں اس غار میں پہنچایا، انھیں زندہ رکھا، دھوپ بھی پہنچائی اور ہوا اور چاندنی بھی تاکہ نہ نیند میں خلل آئے نہ بدن کو کوئی نقصان پہنچے۔ اور فی الواقع یہ بھی اللہ کی طرف سے کامل نشان قدرت تھا کہ ان توحید پرست نوجوان کی ہدایت خود اللہ تعالیٰ نے کی تھی وہ راہ راست پاچکے تھے، کسی کے بس میں نہ تھا کہ انھیں گمراہ کر سکے اور اس کے برعکس جسے وہ راہ نہ دکھائے اس کا کوئی ہادی نہیں۔