وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ ۚ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ ۚ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ
اور جب ان لوگوں سے کہا جائے خدا سے ڈرو (اور ظلم و فساد سے باز آؤ) تو ان کا گھمنڈ انہیں (اور زیادہ) گناہ پر اکساتا ہے۔ پس (جن لوگوں کا حال ایسا ہو تو وہ کبھی ظلم و فساد سے باز آنے والے نہیں) انہیں تو جہنم ہی کفایت کرے گا (اور جس کسسی نے جہنم کا ٹھکانا ڈھونڈھا تو اس کا ٹھکانا) کیا ہی برا ٹھکانا ہوا
پچھلی آیت میں اخنس بن شریق كے برے کردار کا ایک نمونہ ہے جو ہر اس شخص پر صادق آئے گا جو ایسے برے کردار کا حامل ہوگا غرور اور تکبر کرنے والے کا ٹھکانہ جہنم ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پروردگار کے سامنے جنت اور دوزخ میں جھگڑا ہوا، جنت کہنے لگی پروردگار! میرا تو یہ حال ہے کہ مجھ میں تو وہی لوگ آرہے ہیں جو دنیا میں ناتواں اور کمزور اور حقیر تھے اور دوزخ کہنے لگی کہ مجھ میں وہ لوگ آرہے ہیں جو دنیا میں متکبر تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا تو میری رحمت ہے اور دوزخ سے فرمایا تو میرا عذاب ہے۔(بخاری: ۷۴۴۹) ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں بتا ؤں کہ بہشتی کون ہیں اور دوزخی کون؟ جنتی ہر وہ کمزور اور منکسر المزاج ہے کہ اگر وہ اللہ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ اُسے سچا کردے اور دوزخی ہر موٹا، بدمزاج اور متکبر آدمی ہوتا ہے۔ (مسلم: ۲۸۵۳، ترمذی: ۲۶۰۵)