سورة الإسراء - آیت 67

وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ ۖ فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ كَفُورًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جب کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تم سمندر میں ہوتے ہو اور مصیب آلگتی ہے تو اس وقت وہ تمام ہستیاں تم سے کھوئی جاتی ہیں جنہیں تم پکارا کرتے ہو، صرف ایک اللہ ہی کی یاد باقی رہ جاتی ہے، پھر جب وہ تمہیں مصیبت سے نجات دے دیتا اور خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے گردن موڑ لیتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

مصیبت ختم ہوتے ہی شرک: اللہ تعالیٰ ارشاد فرما رہے ہیں کہ مصیبت کے وقت تو بندے خلوص کے ساتھ اپنے پروردگار کی طرف جھکتے ہیں اور اس سے دل سے دعائیں کرنے لگتے ہیں لیکن جہاں اللہ تعالیٰ مصیبت ٹال دیتا ہے تو یہ آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے فتح مکہ کے وقت جب ابو جہل کا لڑکا عکرمہ حبشہ جانے کے ارادے سے بھاگا اور کشتی میں بیٹھ کر چلا تو اتفاقاً کشتی طوفان میں پھنس گئی۔ باد مخالف کے جھونکے اُسے پتے کی طرح ہلانے لگے اس وقت کشتی میں جتنے سوار تھے سب ایک دوسرے سے کہنے لگے، اس وقت سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی کچھ کام نہیں آنے والا۔ اسی کو پکارو۔ عکرمہ کے دل میں اسی وقت خیال آیا کہ جب تری میں صرف وہی کام آسکتا ہے تو ظاہر ہے کہ خشکی میں بھی وہی کام آسکتا ہے۔ الٰہی میں نذر مانتا ہوں کہ اگر تو نے مجھے اس آفت سے بچا لیا تو میں سیدھا جا کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں گا اور یقینا وہ مجھ پر مہربانی اور رحم و کرم فرمائیں گے، چنانچہ سمندر سے پار ہوتے ہی وہ سیدھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا پھر تو وہ اسلام کے پہلوان ثابت ہوئے۔ رضی اللہ عنہ ۔ (مستدرک حاکم: ۳/ ۲۴۱)