سورة الإسراء - آیت 60

وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ ۚ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ ۚ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْيَانًا كَبِيرًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغبر ! وہ وقت یاد کرو) جب تیرے پروردگار نے تجھ سے کہا تھا یقین کر، تیرے پروردگار نے لوگوں کو گھیرے میں لے لیا ہے (یعنی اب وہ دعوت حق کے دائرے سے باہر نکل سکتے) اور رویا جو ہم نے تجھے دکھائی تو اسی لیے دکھائی کہ لوگوں کے لیے ایک آزمائش ہو، اسی طرح اس درخت کا ذکر جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے، ہم انہیں (طرح طرح سے) ڈراتے ہیں لیکن ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا، پڑتا ہے تو صرف یہی کہ اپنی سرکشیوں میں اور زیادہ بڑھتے جاتے ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے خوف ہو کر دین کی تبلیغ کیجیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچاؤ کے ذمہ دار ہم ہیں وہ آپ کو کچھ بگاڑ نہیں سکیں گے۔ ہم ان سے آپ کی حفاظت فرمائیں گے۔ وہ سب لوگ اللہ کے غلبہ اور تصرف میں ہیں اللہ جو چاہے گا وہی ہوگا نہ کہ وہ ہو گا جو چاہیں گے۔ مقصدِ معراج: صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ نے واقعۂ معراج کی تفسیر عینی رؤیت سے کی ہے اور مراد اس سے معراج کا واقعہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو آنکھوں سے دکھایا۔ جو بہت سے کمزور ایمان والوں کے لیے فتنے کا باعث بن گیا اور وہ مرتد ہو گئے کہ آگ میں بھلا زقوم (تھوہر) کا درخت کیسے اُگ سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَذٰلِكَ خَيْرٌ نُّزُلًا اَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّوْمِ۔ اِنَّا جَعَلْنٰهَا فِتْنَةً لِّلظّٰلِمِيْنَ۔ اِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِيْ اَصْلِ الْجَحِيْمِ۔ طَلْعُهَا كَاَنَّهٗ رُءُوْسُ الشَّيٰطِيْنِ۔ فَاِنَّهُمْ لَاٰكِلُوْنَ مِنْهَا فَمَالِـُٔوْنَ مِنْهَا الْبُطُوْنَ﴾ (الصافات: ۶۲۔ ۶۶) ’’کیا یہ مہمانی اچھی ہے یا سینڈھ (زقوم) کا درخت؟ جسے ہم نے ظالموں کے لیے سخت آزمایش بنا رکھا ہے۔ بے شک وہ درخت جہنم کی جڑ میں سے نکلتا ہے۔ جس کے خوشے شیطانوں کے سروں جیسے ہوتے ہیں۔ جہنمی اسی درخت میں سے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے۔‘‘ یہ بھی دراصل اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا انکار ہے کہ اس کی باتوں کو اپنی عقل کے پیمانے سے ناپنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ کا قول ہے۔ شب معراج اور شجرۃ الزقوم پر مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ دکھانا آنکھ کا دکھانا ہے۔ مشاہدہ جو شب معراج میں دکھایا گیا۔ (ابن کثیر)