سورة الإسراء - آیت 59

وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ ۚ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا ۚ وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (جو نشانیاں منکر طلب کرتے ہیں، ان) نشانیوں کے بھیجنے سے ہمیں کون روک سکتا ہے؟ مگر یہ کہ ہم جانتے ہیں پھچلے عہد کے لوگ ایسی ہی نشانیاں جھٹلا چکے ہیں، ہم نے قوم ثمود کو اونٹنی دی کہ ایک آشکار انسانی تھی لیکن انہوں نے اس پر ظلم کیا (اور نشانی سے عبرت نہ پکڑی) اور ہم نشانیاں تو صرف اس لیے بھیجتے ہیں کہ لوگ (انکار و سرکشی کے نتائج سے) ڈریں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یہ آیت اس وقت اتری جب کفار مکہ نے مطالبہ کیا کہ کوہ صفا کو سونے کا بنا دیا جائے یا مکے کے پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹا دیے جائیں تاکہ وہاں کاشت کاری ممکن ہو سکے۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل کے ذریعے سے پیغام بھیجا کہ ان کے مطالبات ہم پورے کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اگر اس کے بعد بھی وہ ایمان نہ لائے تو پھر ان کی ہلاکت یقینی ہے۔ پھرانھیں مہلت نہیں دی جائے گی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس بات کو پسند فرمایا کہ ان کا مطالبہ پورا نہ کیا جائے تاکہ یہ یقینی ہلاکت سے بچ جائیں۔ (مسند احمد: ۱/ ۲۴۲) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ نشانیاں اتار دینا ان کی خواہش کے مطابق ہمارے لیے کوئی مشکل کام نہیں لیکن ہم ا س سے گریز اس لیے کر رہے ہیں کہ پہلی قوموں نے بھی اپنی خواہش کے مطابق نشانیاں مانگیں تھیں جو انھیں دکھا دی گئیں لیکن اس کے باوجود انھوں نے تکذیب کی اور ایمان نہ لائیں جس کے نتیجے میں وہ ہلاک کر دی گئی۔ قوم ثمود کا تذکرہ بطور مثال کے ہے کیونکہ ان کی خواہش پر پتھر کی چٹان سے اونٹنی ظاہر کرکے دکھا دی گئی تھی لیکن ان ظالموں نے ایمان لانے کی بجائے اس اونٹنی کو ہی مارڈالا، جس پر تین دن کے بعد ان پر عذاب آگیا۔ یہ آیتیں صرف دھمکانے کے لیے ہوتی ہیں کہ وہ عبرت و نصیحت حاصل کر لیں۔