سورة الإسراء - آیت 53

وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُّبِينًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغمبر) میرے بندوں سے کہہ دو (یعنی ان سے جو دعوت حق پر ایمان لائے ہیں، مخالفوں سے گفتگو کرتے ہوئے) جو بات کہو ایسی کہو کہ خوبی کی بات ہو، شیطان لوگوں کے درمیان فساد ڈالتا ہے، یقینا شیطان انسان کا صریح دشمن ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

مسلمانو! ایک دوسرے کاا حترام کرو: یعنی آپس میں گفتگو کرتے وقت زبان کو احتیاط سے استعمال کریں، اچھے کلمات بولیں۔ اسی طرح کفار و مشرکین اور اہل کتاب سے اگر مخاطبت کی ضرورت پیش آجائے تو ان سے بھی مشفقانہ اور نرم لہجے میں بات کریں۔ زبان کی ذرا سی بے اعتدالی سے شیطان جو تمھارا کُھلا اور ازلی دشمن ہے تمھارے درمیان آپس میں فساد ڈلوا سکتا ہے یا کفار و مشرکین کے دلوں میں تمھارے لیے بغض و عناد پیدا کر سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی (مسلمان) کی طرف ہتھیار کے ساتھ اشارہ نہ کرے اس لیے کہ وہ نہیں جانتا کہ شیطان شاید اس کے ہاتھ سے وہ ہتھیار چلوا دے( اور وہ اس مسلمان بھائی کو جا لگے جس سے اس کی موت واقع ہوجائے) پس وہ جہنم کے گڑھے میں جا گرے۔‘‘ (بخاری: ۷۰۷۲) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَيَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾ (الانعام: ۱۰۸) ’’اور انھیں گالی نہ دو جنھیں یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ کافر ضد میں آکر جوابی کار روائی کے طور پر اللہ کو برا بھلا کہنے لگیں۔‘‘